کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 17
2۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لَوْ عَاشَ إِبْرَاهِيمُ لَكَانَ صِدّيْقًا نَبِيًّا سے امتی نبوت کے جواز پر حضرت ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ کا تشریحی نوٹ خوب روشنی ڈالتا ہے:
فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى خَاتَمَ النَّبِيِّينَ إِذِ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَأْتِي بَعْدَهُ نَبِيٌّ يَنْسَخُ مِلَّتَهُ وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ
گویا ایسے نبی کا امکان ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ نہ کرے اورآپ کی اُمت میں سے ہو۔ (موضوعات کبیر ص 59)
صداقت کے ثبوت
ایک مسلمان کے لیے اطمینان کا طریق یہ ہے کہ وہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارک سے صداقت کے معیار معلوم کرکے ان پر حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پرکھ لے۔ اول تو بہترین ذریعہ ہے کہ مومن تنہائی میں قادرِمطلق خدا کے حضور دُعا کرے اور اس سے التجاء کرے اگر مرزا صاحب علیہ السلام تیری طرف سے ہیں اورسچے ہیں تو کسی نہ کسی طرح مجھ پر آشکار کردے مسنون دعاء استخارہ اور اپنی زبان میں گریہ و زاری صداقت معلوم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہزاروں ہیں جو اس طریق کو اختیار کرکے دنیوی واخروی فلاح واطمینان پاگئے۔
دوسرے مختلف معیار اخذ کرکے دیکھنا ضروری ہےمثلاً چند معیار حسبِ ذیل ہیں:۔
1۔ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ دعویٰ سے پہلے کی پاکیزہ زندگی صداقت کا ثبوت ہوتی ہے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے اس معیار کو پیش فرمایا حضرت مرزا صاحب کا اس بارہ میں چیلنج ضرورت الامام میں درج ہے اوراپنے پرائے سبھی اس زندگی کو دلکش قراردیتے ہیں جیسا کہ مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری اشاعۃ السنۃ اور تاریخ مرزامیں اقرار کرچکے ہیں۔