کتاب: مکالمات نور پوری - صفحہ 14
یکساں ہے۔ یہاں معیت زمانی اور معیت مکانی ممکن نہیں اس لیے معیت رُتبی ہی مقصود ہے جیسا کہ التفسير الكبير المسميٰ بالبحر المحيط کی جلد 3 صفحہ 287 پر امام راغب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے:
ممن أنعم عليهم من الفرق الأربع في المنزلة والثواب: النبي بالنبي، والصديق بالصديق، والشهيد بالشهيد، والصالح بالصالح
گویا اُمت میں صالحیت، شہادت، صدیقیت کی طرح نبوت کا بھی امکان ہے۔
حدیث شریف سےاُمتی نبی کا امکان
صحیح مسلم کی الجزء الثامن مطبوعہ 1334 کے صفحہ 197 پر نواس بن سمعان کی بیان کردہ طویل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اُمت محمدیہ میں آنے والے کا ذکر کرکے اس کی طرف وحی آنے کا تذکرہ ہے نیز اسے چار دفعہ نبی اللہ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر اُمت محمدیہ کا ہمیشہ یہ اعتقاد رہاہے کہ آنے والا اُمت میں سے ہوگا نیز نبی ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں آنے والے کے اُمتی نبی ہونے کا ہمیشہ اظہار ہوتا رہا۔
صحاح ستہ میں سے ابن ماجہ کی کتاب الجنائز میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اپنے صاحبزادہ ابراہیم علیہ السلام کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
و لَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيْقًا نَبِيًّا
آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے امتی نبوت کا امکان واضح ہے ورنہ فرماتے کہ اگرزندہ بھی رہتا تو نبی نہ ہوتا!۔۔ ۔ اسی طرح حضرت علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی الخصائص الكبريٰ جلد اول(اُردو ص 35۔ 31) اور نشر الطیب فی ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحبیب مطبوعہ تاج کمپنی کے صفحہ 262۔ 261۔ پر ایک طویل حدیث درج ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حضور اُمت ِ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی بنائے جانے کی التجا کی جس پر جواب ملا ”نَبِيُّهَا مِنْهَا“ کہ اس اُمت کا نبی اسی میں سے ہوگا۔
الحاصل:قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی رُو سے امتی نبی کا امکان واضح ہے۔