کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 97
پہچان میں صحابہ اور تابعین کی یادداشت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے کچھ بھی مروی نہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے حکم نہیں ملا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس علم کو امت پر فرض نہیں کیا، اگرچہ اس بارے تھوڑا بہت علم علماء پر واجب ہے۔ جب کہ ناسخ اور منسوخ کی تاریخ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی واضح نص کے بغیر ہی معلوم ہوجاتی ہے۔ ۲۔المنھج القیاسی الاجتہادی: اس کا تعلق مکی اور مدنی آیات کی خصوصیات سے ہے، کسی مکی سورت میں اگر کوئی ایسی آیت آجائے جس میں مدنی آیات کی خصوصایت پائی جاتی ہوں یا اس میں مدنی واقعات کا تذکرہ ہو تو اسے مدنی کہہ دیا جاتاہے، اسی طرح اگر کسی آیت یا مدنی سورت میں مکی خصوصیات والی آیت ہو یا اس میں مکی حالات وواقعات ہوں تو اسے مکی آیت کہتے ہیں ، یہ صرف قیاسی اجتہاد ہے۔ اسی لیے اہل علم مثال دیتے ہیں کہ جب کوئی سورت انبیاء کے واقعات اور سابقہ امتوں کے حالات پر مشتمل ہو تو وہ سورت مکی ہوگی اور ہر وہ سورت جو حدود اور فرائض کی حامل ہو، وہ مدنی ہے۔ امام جعبری کہتے ہیں : ’’مکی اور مدنی کی پہچان کے دو طریقے ہیں : سماعی اور قیاسی۔‘‘ اس بارے کوئی شک نہیں کے سماعی کا دارومدار نقل پر ہوتا اور قیاسی کا عقل پر، جب کہ نقل و عقل ہی علمی تحقیق اور درست پہچان کے دو طریقے ہیں۔ مکی اور مدنی میں فرق اصطلاحی طورپر مکی اور مدنی کے درمیان فرق پر علماء کی تین آراء ہیں ، ان میں سے ہر ایک رائے کی بنیاد ایک خاص اعتبار سے ہے۔ ۱۔زمانہ نزول کا اعتبار: ہجرت سے پہلے کا نزول مکی ہے، خواہ وہ مکہ سے باہر ہی نازل ہوا ہو، جب کہ ہجرت کے بعد کا نزول مدنی ہے، خواہ وہ مدینہ سے باہر ہی ہو۔ اس طرح جو قرآن ہجرت کے بعد مکہ یا عرفات میں بھی نازل ہوا وہ مدنی ہی ہے، جیسے آیت: