کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 95
تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ.﴾(الحج: ۱۔۲)
نازل ہوئیں تو آپ سفر میں تھے۔ اسی طرح مستدرک حاکم میں مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورۃ الفتح واقعہ حدیبیہ کے پس منظر میں شروع سے آخر تک مکہ اور مدینہ کے درمیان (سفر میں ) نازل ہوئی تھی۔
مکی اور مدنی آیات کی پہچان کے علمی فوائد
مکی اور مدنی آیات و سُوَر کی پہچان کے بہت سے فوائد ہیں ، جن میں سے چند ایک قابل ذکر ہیں :
۱۔ اس سے قرآن کی تفسیر میں مدد ملتی ہے، کیوں کہ شانِ نزول کی معرفت آیت کے فہم اور اس کی صحیح تفسیر کرنے میں بہت معاون ہے۔ اگرچہ شانِ نزول کے سبب کو مخصوص کرنے کی بجائے الفاظ کے عموم کا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن مفسر اس شانِ نزول کی روشنی میں دو آیتوں میں تعارض کو دور کر سکتا ہے اور ناسخ ومنسوخ کی پہچان کر سکتا ہے، کیوں کہ بعد میں نازل ہونے والی آیت پہلی کو منسوخ کر دیتی ہے۔
۲۔ قرآن کے اسلوب کو سمجھنے اور دعوت الی اللہ کے طریقہ سے فائدہ اٹھانے کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔ کیوں کہ گفتگو موقع ومحل کے لحاظ سے کی جاتی ہے اور اسی طرح کلام کا موقع ومحل اور بلاغت کے معانی کے مطابق ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جب کہ مکی اور مدنی آیات کا قرآنی اسلوب اللہ کی طرف دعوت دینے والے داعی کو خطاب کے طریقوں کا ایسا منہج دیتا ہے جس کی بدولت مخاطب کی سوچ کے مطابق اس سے بات کی جا سکے، جس کی وجہ سے وہ اس کے عقل وشعور پر غلبہ اور حکمت بالغہ کے ساتھ اس کے اندرونی جذبات پر قابو پا لیتا ہے۔ نیز دعوت کے تمام مراحل میں ایک خاص موضوع اور طرزِ گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً لوگوں کے طور طریقے اور اعتقادات وحالات کے مطابق خطاب بھی مختلف ہوتا ہے۔ جب کہ قرآن کریم میں مومنین، مشرکین، منافقین اور اہل کتاب کے ساتھ انداز بیان میں ان