کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 91
﴿الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَائِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِِلَّا اللَّمَمَ اِِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِِذْ اَنشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنفُسَکُمْ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی.﴾ (النجم: ۳۲) امام سیوطی کہتے ہیں : ’’فواحش سے مراد ہر وہ گناہ ہے جس میں حد لازم آئے اور کبائر سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا انجام جہنم ہے۔ اور لمم وہ گناہ ہیں جو ان دونوں کے درمیان ہیں ، جب کہ مکہ میں حد وغیرہ کوئی چیز نہیں تھی۔‘‘ (دیکھیے الاتقان، ج۱، ص: ۱۸) ۱۰۔ مکہ سے مدینہ لے جائی جانے والی آیات: اس کی مثال سورت ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾ (الاعلی : ۱)ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے سب سے پہلے ہمارے پاس مصعب بن عمیر اور عبداللہ بن امِ مکتوم رضی اللہ عنہما آئے، انہوں نے ہمیں قرآن حکیم پڑھانا شروع کیا، پھر عمار، بلال اور سعد رضی اللہ عنہم آئے اور ان کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیس صحابہ کے ساتھ تشریف لائے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مدینہ والوں کو آپ علیہ السلام کی آمد کی بے پناہ خوشی ہوئی، جب آپ تشریف لائے تو میں اس وقت ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾ (الاعلی : ۱)اور اس جیسی دیگر سورتیں پڑھ چکا تھا۔ لہٰذا اس مثال میں وہ ساری سورتیں اور آیات آجاتی ہیں جنہیں مہاجرین اپنے ساتھ لائے اور انصار کو سکھائیں ۔ ۱۱۔ مدینہ سے مکہ لے جائی جانے والی آیات: اس کی مثال سورۃ التوبہ کی ابتدائی آیات ہیں ، ہجرت کے نویں سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیرِ حج بنا کر بھیجا تو یہ آیات نازل ہوئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذریعے ان آیات کو مکہ بھجوایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملیں اور ان آیات کو مشرکین تک پہنچائیں ، انہوں نے یہ آیات پہنچائیں اور پیغام دیا کہ آئندہ کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے۔ ۱۲۔ دن اور رات میں نازل ہونے والی آیات: قرآن کریم کا زیادہ تر حصہ دن کے وقت نازل ہوا اور جو کچھ رات کے وقت نازل ہوا اسے