کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 86
یقینا یہ ایک بہت بڑی کاوش ہے تاکہ جستجو کرنے والا وحی کی تمام منازل کو اس کے تمام مراحل میں تلاش کر سکے، قرآن کی آیات کے نزول کا وقت معین کر سکے، اس کی جگہ کی تحدید کر سکے، اور ان آیات کے طرزِ خطاب میں جو اسلوب پایا جاتا ہے اس کے قیاسی ضوابط کو دیکھ کر مکی ومدنی کی پہچان کر سکے۔ اسی طرح سورت یاآیت کے موضوع سے بھی تعاون لیا جا سکتا ہے کہ اس کا تعلق مکہ میں دی جانے والی دعوت سے ملتا ہے یا کہ مدینہ میں دی جانے والی دعوت سے، جب مختلف قسم کے دلائل کی بھرمار کی وجہ سے کسی محقق کے لیے الجھن پیدا ہو جائے تو پھر وہ ان میں کسی کو ترجیح دینے کی کوشش کرے گا، بعض کو مکہ میں نازل ہونے والی اور بعض کو مدنی آیات میں شامل کرے گا۔ جب کچھ آیات ایک جگہ نازل ہوئیں پھر نزول کے فوراً بعد کسی ایک صحابی نے انہیں کسی دوسری جگہ پہنچا دیا تو علماء نے انہیں اسی طرح بیان کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ آیات مکہ سے مدینہ یا مدینہ سے مکہ لائی گئی ہیں ۔ ابوالقاسم حسن بن محمد بن حبیب نیشاپوری اپنی کتاب ’’التنبیہ علیٰ فضل علوم القرآن‘‘ میں کہتے ہیں : علومِ قرآن میں سب سے بہترین علم اس کے نزول کی جہات اور مکی ومدنی نزول کی ترتیب ہے، اسی طرح مکہ میں نازل ہونے والی مدنی اور مدینہ میں نازل ہونے والی مکی آیات، مکہ میں اہل مدینہ کے بارے نازل ہونے والی آیات، مدینہ میں اہل مکہ کے بارے نازل ہونے والی آیات، وہ مکی نزول جو مدنی نزول کے مشابہ ہے یا وہ مدنی نزول جو مکی نزول کے مشابہ ہے، اسی طرح جحفہ، بیت المقدس، طائف اور حدیبیہ میں نازل ہونے والی آیات، رات کے وقت کیا نازل ہوا، دن کو کیا اترا، عمومی اور انفرادی طور پر نازل ہونے والی آیات، مکی سورتوں کی مدنی آیات، مدنی سورتوں کی مکی آیات، مکہ سے مدینہ لے جائی جانے والی، مدینہ سے حبشہ کی طرف لے جائی جانے والی آیات، کیامختصر نازل ہوا کیا مفصل، وہ آیات جنہیں بعض نے مکی کہا اور بعض نے مدنی، یہ پچیس اقسام ہیں ، جس شخص کو ان سب کے بارے علم نہ ہو اور ان میں امتیاز نہ کر سکے گا، اسے کتاب اللہ کے بارے گفتگو کرنا جائز نہیں ۔ اہل علم نے انتہائی دقت سے کام لیتے ہوئے ہر سورت کو اس کی