کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 85
الفاظ نظر آتے ہیں جو سننے والے کو خوب جھنجوڑتے ہیں ، ان آیات میں وعید کے شعلے اور عذاب کی زبان بولتی دکھائی دیتی ہے، ان سورتوں میں برائی کو مٹانے والی، ڈانٹ پلانے والی، کانوں کو پھاڑنے والی اور واقع ہونے والی قیامت کے بارے تذکرہ ملتا ہے۔
ان سورتوں کے شروع میں حروفِ تہجی(مقطعات)، جب کہ درمیان میں چیلنج کرنے والی آیات، پچھلی امتوں کا انجام اور مشاہداتی وعقلی دلائل بیان کیے گئے ہیں ، یہ ایسی خصوصیات ہیں جو صرف مکی سورتوں میں ہی نظر آتی ہیں ۔
پھر جب اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، کتابوں ، آخرت کے دن اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانے والی جماعت بن گئی تو اس عقیدے کی وجہ سے ان لوگوں کو مشرکین کی طرف سے تکالیف ومصائب کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان لوگوں نے صبر کیا اور اللہ کے ہاں ملنے والی نعمتوں کو دنیاوی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے ہجرت کر کے چلے گئے۔ مدینہ منورہ جا کر جب یہ ایک مضبوط جماعت بن گئی تو مدنی سورتوں کا نزول ہوا اور ہم دیکھتے ہیں کہ مدنی سورتیں طویل ہیں ، ان میں اسلام کے احکام و حدود بیان ہوئے ہیں ، ان میں جہاد فی سبیل اللہ اور شہید ہونے کی دعوت ہے، یہ سورتیں قوانینِ اسلام کی تفاصیل، معاشرتی ضابطے، خاندانی تعلقات کی حدود، باہمی میل جول اور اسی طرح حکومت اور رعایا کے تعلقات کو بیان کرتی ہیں ، نیز منافقین کی رسوائی اور ان کے پوشیدہ مکروفریب کا پردہ چاک کرتی ہیں اور اہل کتاب سے مجادلہ کرتے ہوئے ان کی زبانیں بند کرتی ہیں ، مدنی آیات کا یہی اسلوب ہے۔
مکی ومدنی آیات پر علماء کی توجہ اور ان کی امثلہ وفوائد
علماء نے مکی اور مدنی سورتوں کی پہچان میں بھرپور کوشش کی، انہوں نے قرآن کی ایک ایک آیت اور ایک ایک سورت کو ان کے نزول کی ترتیب اور زبان ومکان ، طرز خطاب کا لحاظ رکھتے ہوئے پرکھا۔ انہوں نے صرف وقت اور جگہ کو ہی کافی نہیں سمجھا، بلکہ زمان ، مکان اور طرزِ خطاب تینوں کو جمع کیا ہے۔ یہ ایک ایسی لطیف تحدید ہے جس سے ایک منصف مزاج محقق کو مکی ومدنی سورتوں کی پہچان ایک علمی تحقیق کے ساتھ حاصل ہو جاتی ہے، نیز قرآن کریم سے تعلق رکھنے والی دوسرے مباحث میں بھی ہمارے علماء نے یہی طرز اپنایا ہے۔