کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 84
کیا جاتا، تاکہ زندگی کو ہدایت الٰہی اور بصیرت سے روشناس کیا جا سکے۔
قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا شخص مکی آیات میں ایسی قدروقیمت اور معانی ومفاہیم پاتا ہے جو مدنی سورتوں میں مفقود ہیں ، گوکہ مدنی سورتوں میں احکام وقوانین پائے جاتے ہیں ۔
دورِ جاہلیت میں قوم اندھی اور بہری تھی، وہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے، اللہ کے ساتھ شرک کرتے، وحی کا انکار کرتے اور قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے، وہ کہا کرتے تھے:
﴿اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا اَئِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ ﴾ (الصافات: ۱۶)
’’کیا مرنے اور مٹی اور ہڈیاں بن جانے کے بعد ہمیں پھر اٹھایا جائے گا؟‘‘
اور یہ بھی کہتے:
﴿مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِِلَّا الدَّہْرُ﴾ (الجاثیہ: ۲۴)
’’ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے ہمیں موت آتی ہے اور زندہ ہوتے ہیں ، ہمیں تو صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔‘‘
یہ بہت زیادہ جھگڑالو ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے اپنی بات پر اڑ جانے والے لوگ تھے، چناں چہ جس طرح کی وہ قوم تھی اسی انداز سے مکی سورتیں نازل ہوئیں ، جن میں خوب ڈانٹ ڈپٹ، بہترین تنبیہ اور قطعی دلائل موجود ہیں ۔ جو ان کی بت پرستی کے باطل عقیدہ کو ختم کر کے انہیں ایک سچے معبود اور پروردگار کو مان لینے کی دعوت دیتے ہیں ، یہ سورتیں ان کے بگاڑ کے پردوں کو چاک اور ان کی عقل کی خرابی کو ظاہر کرتی ہیں ۔ اسی طرح یہ سورتیں نبوت کے دلائل پیش کرنے کے ساتھ، حیاتِ اخروی اور جنت ودوزخ کے بارے مثالیں دیتی ہیں ۔ نیز یہ آیات ان کی فصاحت وبلاغت کو چیلنج کرتے ہوئے انہیں قرآن جیسی کتاب پیش کرنے کی دعوت دیتی ہیں ۔
ان سے پہلے جن قوموں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا، مکی آیات ان اقوام کے حالات اور ان پر آنے والے عذاب کی داستان بیان کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو مکی آیات میں ایسے سخت