کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 83
مبحث: 4
مکی ومدنی
قومیں اپنی فکری وراثت اور تہذیب وثقافت کے اسباب کی حفاظت کرتی ہیں ، امت مسلمہ نے بھی رسالت محمدیہ کی حفاظت کے لیے بھرپور کوشش کی، جس سے انسانیت کو عزت واحترام نصیب ہوا، کیوں کہ ہر علمی واصلاحی پیغام کا اہتمام اسی قدر ہوتا ہے جس قدر اسے عقل قبول کرتی اور لوگ تسلیم کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ دین تو فکری زادِ راہ اور اصلاحی بنیادوں سے بڑھ کر ایسا پیغام ہے جو عقل وشعور اور دل کی دھڑکنوں میں رچ بس چکا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام وتابعین عظام میں اساطین علم قرآن کی منزلوں کو ایک ایک آیت کی صورت میں یاد کرتے تھے، جس سے وقت اور جگہ کا تعین ہوتا ہے اور اس حفظ کو تاریخِ تشریع میں ایسے مضبوط سہارے کا درجہ حاصل ہے جس پر اسلوبِ دعوت، خطاب کی رنگینیاں اور احکام وذمہ داریاں ، تدریج کی معرفت پر بحث کرنے والے لوگوں کے لیے سہارا بن جاتی ہیں ۔
اس بارے میں سیدنا عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، قرآن کریم کی ہر نازل ہونے والی سورت کے بارے مجھے اچھی طرح علم ہے کہ وہ کس جگہ اور کس معاملے میں نازل ہوئی تھی، اور اگر مجھے علم ہوتا کہ کوئی شخص کتاب اللہ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور وہاں تک اونٹ پہنچ سکتے ہوں تو میں اس کی طرف سفر کرتا۔‘‘ (اخرجہ البخاری)
دعوت الی اللہ کے لیے ایک ایسے منہج کی ضرورت ہے جس کا اسلوب عقیدہ کی خرابیوں سے پاک اور بہترین انداز، عمدہ اخلاق اور اچھے سلوک جیسی خوبیوں سے مزین ہو اور اس دعوت کی ذمہ داری اس وقت تک فرض نہیں ہوتی جب تک اس کا میدان ہموار نہ ہو جائے اور ان اینٹوں کو اچھی طرح چن نہ دیا جائے جن پر اس دعوت کی بنیاد رکھنی ہے، اسی طرح اس دعوت کی قانونی بنیادیں اور اجتماعی نظم وضبط اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک دل کو پاکیزہ اور مقاصد کا تعین نہیں