کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 82
صفات بلند وبرتر ہیں اور اس کے افعال ہر لحاظ سے مکمل اور بلند ہیں ، چناں چہ کلام کرنا مخلوق کے لیے کمال کی صفت ہے تو خالق سے اس صفت کی نفی کرنا کیسے مناسب ہے؟ ہمیں یہی چاہیے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول سے ثابت صفاتِ الٰہیہ پر اس طرح ایمان لائیں جس طرح بدعتی متکلمین کے ظہور سے پہلے صحابہ، تابعین اور ائمہ فقہ وحدیث کا موقف رہا ہے، خواہ اس بارے میں کوئی چیز ثابت کی گئی ہو، یا کسی چیز کی نفی کی گئی ہو ہم ان صفات میں تعطیل، تشبیہ، تمثیل اور تاویل کو تسلیم نہیں کرتے، یہ ایسے دور کے لوگوں کا عقیدہ ہے جن کے بہترہونے کی گواہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کی ذات، اور صفات کی کیفیت کے بارے اپنی رائے سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ.﴾ (الشوریٰ: ۱۱) ’’اس (اللہ) جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ سوالات ۱۔ متکلمین سے کون لوگ مراد ہیں ؟ ۲۔ متکلمین نے کلام اللہ کو کتنے حصوں میں تقسیم کیا ہے؟ ۳۔ صاحب کتاب نے متکلمین کی سازشوں کا کیا جواب دیا ہے؟ ۴۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے بارے اہل السنہ والجماعۃ کا موقف بیان کریں ۔