کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 81
۲۔ لفظی:
یہ وہ کلام ہے جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوا، چاروں کتابوں کا تعلق اسی کلام سے ہے۔
اس پر متکلمین علماء اپنے نئے نئے کلامی اختلافات میں کھو گئے اور کہنے لگے: کیا یہ قرآن اپنے دوسرے معنی (یعنی لفظی) کے ساتھ مخلوق ہے یا نہیں ؟ پھر ان لوگوں نے اس کے مخلوق ہونے کو ترجیح دی اور اس عقیدہ کی وجہ سے یہ سلف صالحین کے منہج سے دور چلے گئے۔ جو کچھ منہج کتاب وسنت کے مطابق تھا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو اسی فلسفیانہ انداز میں پیش کیا جو عقیدہ توحید میں شک کا باعث بنا۔
جب کہ اہل السنہ والجماعۃ کا موقف ہے کہ جو اسماء وصفات اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول نے اللہ کے بارے بیان کی ہیں وہ برحق ہیں اور ایک مسلمان کا یہی حق بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام پر ایمان رکھے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا﴾ (النساء: ۱۶۴)
’’اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ( علیہ السلام ) سے کلام کی۔‘‘
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم جو وحی کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ اللہ کی کلام ہے نہ کہ مخلوق، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ﴾ (التوبہ: ۶)
’’اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دیں یہاں تک کہ اللہ کا کلام سن لے۔‘‘
یہ صفتِ کلام اور اس جیسی دیگر صفات اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول نے اللہ کے لیے بیان کی ہیں ، گوکہ یہ انسان میں بھی ہیں ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے کمال کے منافی نہیں ہیں ، کیوں کہ انسان کی یہ صفات ناقص ہیں اور صفاتِ الٰہیہ بندوں کی صفات جیسی نہیں ہیں ۔
نیز ناموں کا اشتراک چیزوں کے اشتراک کا تقاضا نہیں کرتا۔ چناں چہ خالق اور مخلوق کی ذات، صفات اور افعال میں مماثلت کیسے ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات اکمل ترین ہے، اس کی