کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 80
اختیار کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک مرد کا روپ دھار لیتا ہے۔ اب اس کے لیے فکر ونظر کے میدان کھلے ہوتے ہیں تو اس کے پاس ان لوگوں کی گمراہی کی دلیل آتی ہے تو وہ ان کی مخالفت کرتا ہے، جس طرح کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا کیا۔[1] لیکن یہاں تو معاملہ عام طریق کار سے مختلف تھا، آپ کو ابتدائی عمر سے ہی بت پرستی ناپسند تھی جس کی بدولت پاکیزہ عقیدہ اور اخلاق حسنہ آپ کو بہت جلد حاصل ہو گئے اور آیت ﴿وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی﴾ (الضحیٰ: ۷) سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ توحید کی معرفت حاصل ہونے سے پہلے آپ کو بت پرستی سے لگاؤ تھا، یا آپ خلق عظیم سے پہلے راہ راست پر نہ تھے، ہرگز نہیں ، اللہ کی پناہ ، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ یہ آیت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیرت کو ظاہر کرتی ہے جو ہر مخلص انسان کے دل میں انگڑائیاں لیتی ہے، کیوں کہ وہ لوگوں کے لیے نجات اور راہ ہدایت کے متمنی ہوتے ہیں ، تاکہ انہیں ہلاکت سے بچایا جاسکے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی ہو سکے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پوری مخلوق کی رہنمائی اور نفاذِ شریعت کے لیے رسالت کی ذمہ داری دی اور آپ کے ذریعے لوگوں کی اُس راہ کی طرف رہنمائی کی جس کی ایک مدت سے آپ کی بصیرت متلاشی تھی۔ متکلمین کی سازشیں متکلمین[2] نے بھی اللہ کے کلام کے بارے فلاسفہ کی طرز پر بحث کی ہے، انہوں نے لوگوں کو ایسی سازشوں میں پھنسا دیا جو ان کی گمراہی کا باعث بن گئیں ، ان لوگوں نے کلامِ الٰہی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: ۱۔ نفسی ۲۔ لفظی ۱۔ نفسی: یہ قدیم کلام ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے، یہ حرف ہے نہ آواز، ترتیب ہے نہ لغت۔
[1] مثلاً ورقہ بن نوفل اور زید بن عمروبن نفیل وغیرہ نے دورِ جاہلیت میں اپنی قوم کی مخالفت کی تھی۔ (مترجم) [2] متکلم ہربات کرنے والے کو کہتے ہیں ، لیکن یہاں ایک خاص گروہ مراد ہے جو کہ فلاسفہ کی طرح علم کلام کا ماہر اور دین کے موضوع پر کلام کرنے والا ہے۔(ع م)