کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 78
کو دیکھا تھا اور مکہ میں وحی آنے کے بعد آپ کی ملاقات ورقہ بن نوفل سے ہوئی اور ہجرت کے بعد آپ یہودونصاریٰ کے علماء سے ملے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ نبوت سے پہلے آپ نے ان میں سے کسی سے بھی کچھ نہیں سیکھا، جب کہ نبوت کے بعد یہ لوگ آپ سے مجادلہ کر کے مستفید ہوتے اور آپ سے علم سیکھتے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ حاصل کیا ہوتا تو تاریخ اس بارے خاموش نہ رہتی، کیوں کہ یہ معمولی بات نہ تھی جس سے لوگ چشم پوشی کرتے، خصوصاً وہ لوگ جو اسلام کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ تاریخ نے شام کے راہب اور ورقہ بن نوفل کے بارے جو باتیں نقل کی ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بشارت اور اعتراف کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی انسان تعلیم دیتا تھا تو جب ہمارا ان سے سوال ہوتا ہے کہ اس استاد کانام کیا تھا؟ تو ہمیں جواب ملتا ہے: ’’حداد رومی‘‘ عقلی لحاظ سے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن کا علم اس شخص سے لیا جائے جسے اہل مکہ ایک عالم کی حیثیت سے جانتے ہی نہیں ، جو کتابیں پڑھا سکتا ہو؟ بلکہ وہ ایک لوہار کی حیثیت سے مشہور ہو جو اپنے ہتھوڑے اور اہرنی (سان) سے کام کرتا ہو، وہ تو ایک عام عجمی انسان تھا اور اس کے پڑھنے کی صلاحیت عربوں سے زیادہ نہ تھی۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ.﴾ (النحل: ۱۰۳) ’’ہم خوب جانتے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ایک انسان سکھاتا ہے، جس کی طرف وہ ان کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے جب کہ یہ زبان واضح عربی ہے۔‘‘ عربوں کی شدید خواہش تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑے کے دوران قرآن کو ایک طرف کردیں ، لیکن وہ اس کام سے عاجز رہے اور اپنے سامنے تمام دروازوں کو بند پایا، جس سے ان کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ آج کے ملحدین کو کیا ہوگیا ہے کہ چودہ صدیاں بیت گئیں اور یہ آج تاریخ کے ڈھیروں سے انہی ناکام رستوں سے کوئی رستہ تلاش کر رہے ہیں ۔