کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 77
حیران کن بات تو یہ ہے کہ ان سب کے باوجود وہ آپ کو ’’صادق وامین‘‘ بھی کہتے ہیں ، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنے خوابوں کو وحیِ الٰہی کہنے سے معذور تھے، چوں کہ آپ کی طاقت ور عقل نے ان خوابوں کو وحیِ الٰہی کی صورت دے دی، چناں چہ آپ نے وہی دیکھا جو آپ کو پتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے بڑوں کے بارے میں ہمیں یہی بتایا ہے:
﴿فَاِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَ لٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ.﴾ (الانعام: ۳۳)
’’یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘
اگر آپ کو دیکھی اور سنی چیزوں کے بارے یہ عذر ہے تو اس دعویٰ کے بارے کیا عذر ہوگا کہ آپ اور آپ کی قوم کو اس سے پہلے ان باتوں کی کوئی خبر نہ تھی، حالاں کہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خبروں کو پہلے سے سن رکھا تھا۔ اب وہ کہیں گے آپ نے یہ خبریں خود گھڑی ہیں تاکہ ان کی حکایت مکمل ہو سکے، لیکن وہ یہ نہیں کہنا چاہیں گے، کیوں کہ یہ انصاف اور عقل مند ہونے کے مدعی ہیں ، لیکن یاد رہے ان لوگوں نے لاشعوری طور پر یہ بھی کہہ دیا ہے۔
تیسرا شبہ:… قدیم اور جدید دور کے جاہلوں کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی علوم کو کسی معلم سے حاصل کیا تھا۔
جواب:… یہ سچ ہے، لیکن جس معلم سے آپ نے قرآن سیکھا وہ فرشتہ وحی جبرائیل علیہ السلام تھے، ان کے علاوہ آپ کا اپنی قوم سے اور نہ ہی کسی دوسری قوم سے کوئی استاد تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی پیدا ہوئے اور ایک امی کی حالت میں ہی زندگی بسر کی اور آپ ایک امی امت سے ہی تھے، جس میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جس کے پاس علمی اور تدریسی تمغے موجود ہوں ، تاریخ ان تمام باتوں پر شاہد ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ۔
کسی دوسری قوم سے کوئی آپ کا استاد ہو یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ کوئی بھی تحقیق کرنے والا تاریخ سے اس بارے میں ایک لفظ بھی ثابت نہیں کر سکتا، جس سے پتا چلتا ہو کہ آپ نے اپنی نبوت کے اعلان سے پہلے کسی عالم سے ملاقات کی ہو جس نے آپ کو اپنی معلومات دی ہوں ۔
حقیقت تو صرف یہ ہے کہ آپ نے بچپن میں شام کے اندر بُصری کے بازار میں بحیرا راہب