کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 76
حق کا فیصلہ دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے وہ اسے لے لے یا اسے چھوڑ دے۔‘‘ (رواہ البخاری ومسلم واصحاب السنن) ڈاکٹر عبداللہ دراز کہتے ہیں : ’’آج کے دور کے ملحدین اس قسم کی رائے کو ’’وحیِ نفسی‘‘ کا نام دیتے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ اس نام کے ساتھ ہم نے لوگوں کو ایک نئی علمی سوچ دی ہے۔ جب کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو وہی پرانی جاہلانہ رائے ہے، اور اپنے اجمال وتفصیل میں اس سے ذرا برابر مختلف نہیں ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کشی کی ہے جس میں خیالات کی وسعت اور احساسات کی گہرائی پائی جاتی ہے، اس طرح آپ ایک شاعر بن جاتے ہیں ۔ پھر یہ لوگ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجدان احساسات کو بھی پیچھے جھوڑ جاتا ہے، یہاں تک کہ آپ یہ سمجھتے تھے میں کسی شخص کو دیکھ رہا ہوں ، یا دور کی باتیں سنتا ہوں ، یہ سب چیزیں آپ کے وجدان اور خیالات کی ایک صورت ہیں جب کہ یہ چیز دیوانگی ہو سکتی ہے یا پھر بے سروپا خواب۔ (معاذ اللہ) لیکن وہ ان تعلیلات پر بھی زیادہ دیر قائم نہیں رہتے اور اسے ’’وحیِ نفسی‘‘ کہنا بھی چھوڑ دیتے ہیں ، کیوں کہ قرآن کریم انہیں ماضی، حال اور مستقبل کے حالات سے آگاہ کرتا ہے، پھر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے آپ نے اپنے تجارتی سفروں میں علماء سے یہ سب باتیں سن لی ہوں اور سنی ہوئی باتوں کو انسان یاد کر ہی لیتا ہے۔ اس میں آپ کو کون سی نئی چیز نظر آتی ہے؟ کیا یہ وہی پرانی باتیں نہیں جو قریش کے جاہل کہا کرتے تھے، یہ تو نئے لباس میں الحاد کی بہت بری صورت ہے جو کہ پرانے لباس سے بھی قبیح اور گھناؤنی ہے، اور جدید دور کے ان مہذب افکار کو اسی دسترخوان سے غذا مل رہی ہے جسے جاہلیت کے پتھر دل لوگوں نے بھی چھوڑ دیا تھا، قرآن کہتا ہے: ﴿کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ﴾ (البقرہ: ۱۱۸) ’’ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا ان کے دل ملے جلے ہیں ۔‘‘