کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 75
رب العالمین نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا.﴾
(الکہف: ۱۱۰)
’’کہہ دیجئے میں تو تم جیسا ایک بشر ہی ہوں ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۸۸)
آپ کہہ دیجیے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی نقصان کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا، میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دو جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے حقیقت کو نہ پا سکے، حالاں کہ آپ نے ان کی باتیں بھی سنی تھیں ، جب حقیقت یہ ہے تو پھر آپ کو پچھلے اور آئندہ حالات سے آگاہی کس طرح ممکن ہو سکتی ہے؟
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو آپ ان کے پاس جا کر فرمانے لگے:
’’میں بھی ایک انسان ہوں اور تم لوگ میری طرف اپنے مقدمات لے کر آئے ہو، ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے تیز ہو، تو میں اسے سچا سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں ، سنو! جس کے لیے میں اس کے بھائی کے