کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 74
ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ. اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ.﴾ (الحج: ۴۰۔۴۱)
’’جو اللہ (کے دین)کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا، بڑے غلبے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگرہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں ، زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں ، تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ﴾ (الانفال: ۵۳)
’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے، جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی۔‘‘
ان تمام باتوں میں اس بات کا بھی اضافہ کرلیں کہ قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہی ہے کہ وہ بھی وحی کی اتباع کرنے والے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ اِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْ لَا اجْتَبَیْتَہَا قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ﴾ (الاعراف: ۲۰۳)
’’اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے، آپ فرما دیجیے کہ میں اس کی اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر وحی آتی ہے۔‘‘
نبی علیہ السلام ایک انسان تھے آپ کو غیب کا علم نہیں تھا اور نہ ہی آپ کو اپنے معاملات کا اختیار تھا،