کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 72
کہ آپ خود بھی امی تھے اور ایک ایسی قوم میں آپ نے زندگی بسر کی جو امی تھی اور لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتی تھی۔
آج کے جاہل ملحدین سے قدیم جاہل لوگ زیادہ ذہین تھے، انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں اپنی طرف سے کی ہیں ، بلکہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ آپ کو یہ باتیں لکھائی اور پڑھائی جاتی ہیں ، قرآن نے ان کی باتوں کو اس انداز میں بیان کیا ہے:
﴿وَقَالُوْا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا.﴾ (الفرقان: ۵)
’’اور انہوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ، جنہیں آپ نے لکھ رکھا ہے اور صبح وشام آپ کو املاء کروائے جاتے ہیں ۔‘‘
حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی استاد سے کوئی سبق نہیں پڑھا، تو چالیس سال گزر جانے کے بعد اچانک اتنی باتیں آپ کے پاس کیسے آئیں ؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ وحی کی بدولت تھا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی.﴾ (النجم: ۴)
’’یہ تو صرف وحی ہے، جو بھیجی گئی۔‘‘
ان خبروں کے علاوہ قرآن میں بہت سے علوم پائے جاتے ہیں ، انہی علوم میں سے ایک عقیدہ ہے، جو کہ کائنات کی تخلیق کی ابتداء سے انتہا تک تفصیلی امور پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اس میں آخرت کی زندگی، جنت، اس کی نعمتوں ، جہنم اور اس کے عذابوں کی تفاصیل موجود ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے اوصاف اور ان کی ذمہ داریوں کا تذکرہ ہے، ان سب معلومات میں انسانی فہم وفراست اور عقل کا کوئی دخل نہیں ہے۔رب العالمین نے فرمایا:
﴿وَمَا جَعَلْنَا اَصْحٰبَ النَّارِ اِِلَّا مَلَائِکَۃً وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِیْمَانًا﴾
(المدثر: ۳۱)
’’ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں ، اور ہم نے ان کی تعداد