کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 71
﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰن وَ اِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ.﴾ (یوسف: ۳) ’’ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس لیے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا اور یقینا آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ مَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ﴾ (آل عمران: ۴۴) ’’آپ تو اس وقت بھی ان کے پاس نہیں تھے، جب وہ مریم کی کفالت کے لیے قلم پھینک رہے تھے۔‘‘ اسی طرح قرآن کریم میں بہت سی دقیق باتیں ہیں جو حسابی رقموں پر مشتمل ہیں ، جن کا ادراک صرف صاحبِ بصیرت شخص کو ہی ہوسکتا ہے۔ چناں چہ نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا فَاَخَذَہُمُ الطُّوْفَانُ وَ ہُمْ ظٰلِمُوْنَ.﴾ (العنکبوت: ۱۴) ’’ہم نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، وہ ان میں ساڑھے نو سو سال رہے، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا، کیوں کہ وہ ظالم تھے۔‘‘ تورات کے باب سفر تکوین میں اسی طرح لکھا ہوا ہے۔نیز اصحابِ کہف کے بارے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ﴿وَ لَبِثُوْا فِیْ کَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا.﴾ (الکہف: ۲۵) ’’وہ اپنی غار میں تین سو نو سال ٹھہرے رہے۔‘‘ اہل کتاب کے مطابق یہ مدت تین سو سال شمسی لحاظ سے ہے، جب کہ قمری لحاظ سے مدت تین سو نو سال بنتی ہے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی نہ آتی تو وہ اس قدر باریک حقائق کیسے بیان کر سکتے تھے؟ جب