کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 70
قرآن کریم نے سابقہ امتوں ، انبیاء اور تاریخی واقعات کی خبروں کو بالکل صحیح انداز میں اسی طرح بیان کیا ہے، جیسے کوئی شخص آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو، جس نے پہلی دنیا کی نشوونما کو بہت گہرائی سے دیکھا ہو، جس میں فکر وسوچ اور فہم وفراست کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جب کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان امتوں سے کوئی واسطہ نہیں رہا اور نہ ہی آپ کو ان کی کتابوں تک رسائی حاصل تھی کہ جن کی اتنی باریک باتوں کو پڑھ کر آپ لوگوں تک پہنچاتے، نیز یہ واقعات بھی مختلف ادوار میں پیش آئے، اگر ایسا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ آپ نے یہ واقعات خود دیکھے تھے اور پھر ان کی خبریں ہم تک پہنچائیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَآ اِلٰی مُوْسَی الْاَمْرَ وَ مَا کُنْتَ مِنَ الشّٰہِدِیْنَ. وَ لٰکِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْہِمُ الْعُمُرُ وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَا وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ.﴾ (القصص: ۴۴۔۴۵) ’’اور طور کے مغربی جانب جب کہ ہم نے موسیٰ( علیہ السلام ) کو احکام کی وحی پہنچائی تھی تو آپ وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہی آپ دیکھنے والوں میں سے تھے لیکن ہم نے بہت سی نسلیں پیدا کیں ، جن پر لمبی مدتیں گزر گئیں اور نہ آپ مدین کے رہنے والوں میں سے تھے کہ ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کرتے، بلکہ ہم ہی رسولوں کو بھیجنے والے رہے۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا: ﴿تِلْکَ مِنْ اَنْبَآئِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہَآ اِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا فَاصْبِرْ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ.﴾ (ہود: ۴۹) ’’یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں ، جب کہ آپ اور آپ کی قوم کو اس سے پہلے ان کے بارے کچھ علم نہ تھا، آپ صبر کریں ، بے شک پرہیزگاروں کے لیے اچھا انجام ہے۔‘‘ نیز فرمایا: