کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 69
آپ کو جھوٹ بولتے نہیں سنا۔ یہ آپ کی بے داغ سیرت ہی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کے دل اسلام قبول کرنے کی طرف مائل ہونے لگے۔
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف امڈ آئے، ہر طرف ایک ہی آواز تھی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں ، چناں چہ میں بھی لوگوں کے ساتھ مل کر آپ کو دیکھنے کے لیے آیا، جب میں نے آپ کے چہرہ انور کو دیکھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ ایسا چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔
(رواہ الترمذی بسند صحیح)
سچائی سے معمور ان عظیم صفات کا مالک انسان جب خود اعلان کرے کہ قرآن کریم میری کتاب نہیں تو شک وشبہ میں مبتلا ہونا کسی بھی شخص کے لیے نامناسب ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَآیِٔ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ﴾ (یونس: ۱۵)
’’آپ فرما دیں کہ اس کتاب کو بدلنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے، میں تو صرف اپنی طرف آنے والی وحی کی اتباع کرتا ہوں ۔‘‘
دوسرا شبہ:… قدیم اور جدید دور کے جاہل کہتے ہیں کہ نبی علیہ السلام بے حد ذہین، صاحبِ بصیرت، پاکیزہ نفس، فہم وفراست اور فکری سچائی کے مالک تھے، جس کی وجہ سے آپ بھلائی وبرائی اور حق وباطل کے معیار کو جانچ لیتے تھے اور اسی طرح پوشیدہ امور کی پہچان کشف اور ادراکی حِس کی وجہ سے تھی اور قرآن عقلی استنباط اور ادراک وجدانی کے اثر سے خارج نہیں ، جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسلوب اور بیان سے تعبیر کیا ہے۔
جواب:… قرآن کریم میں کون سی ایسی چیز ہے جس کا دارومدار ذہانت، استنباط اور شعور پر ہو؟
قرآن کریم کا ایک بہت بڑا حصہ اخباری یعنی پہلی اقوام کے حالت وواقعات پر مشتمل ہے، ہر عقل مند آدمی اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے ان خبروں کو سنے اور یاد کیے بغیر بیان نہیں کیا جا سکتا۔