کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 68
عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ. لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.﴾ (الانفال: ۶۷۔۶۸) ’’نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں ہونے چاہئیں جب تک کہ ملک میں اچھی طرح خون ریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زورآور باحکمت ہے۔ اگر پہلے ہی اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ملتی۔‘‘ اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی عبداللہ بن امِ مکتوم رضی اللہ عنہ کو اکابرینِ قریش کو اسلام کی دعوت دیتے وقت اہمیت نہ دی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿عَبَسَ وَتَوَلّٰی. اَنْ جَائَہُ الْاَعْمٰی. وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّٰی. اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی. اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی. فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی. وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی. وَاَمَّا مَنْ جَآئَ کَ یَسْعٰی. وَہُوَ یَخْشٰی. فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَہّٰی. کَلَّا اِِنَّہَا تَذْکِرَۃٌ .﴾ (عبس: ۱۔۱۱) ’’وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا (صرف اس لیے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا، تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا، یا نصیحت سنتا اور نصیحت اسے فائدہ دیتی۔ جو بے پروائی کرتا ہے، اس کی طرف تو تو پوری توجہ کرتا ہے، حالاں کہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں اور جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور وہ ڈر بھی رہا ہے تو اس سے بے رخی برتتا ہے، یہ ٹھیک نہیں قرآن تو نصیحت کی چیز ہے۔‘‘ اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوش سنبھالا تو اچھے اخلاق، سچائی اور قول وعمل میں آپ کی سنہری سیرت کے پہلو منفرد اور مثالی تھے، اور آپ کی قوم بھی ان ساری باتوں کی گواہی دیتی تھی۔ یہاں تک کہ جب اسلام کی ابتدا میں آپ نے انہیں سچے دین کی طرف بلایا تو ان سے کہا: بتاؤ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس وادی کے پیچھے سے ایک لشکر نکل کر تمہارے اوپر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟‘‘ تو سب لوگوں نے بیک زبان کہا: جی ہاں ، کیوں کہ ہم نے کبھی