کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 67
لیے، آپ اپنی عزت محفوظ کرنے کے لیے پہلے ہی ان آیات کو بیان کردیں ۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے بارے تو جھوٹ نہ کہیں اور اللہ کے بارے جھوٹ کہہ دیں ۔
قرآن کہتا ہے:
﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ. لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ. ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ. فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ.﴾ (الحاقۃ: ۴۴۔۴۷)
’’اور اگر وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہماری طرف بعض باتیں منسوب کریں تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیں ، پھر ہم ان کی گردن کی رگ کاٹ دیں اور تم میں سے کوئی (ہمیں ) روکنے والا نہ ہوگا۔‘‘
ایک جماعت نے غزوہ تبوک میں شرکت نہ کی اور آپ کے سامنے عذر پیش کیے، یہ عذر پیش کرنے والے منافق تھے، آپ نے انہیں اجازت دے دی، پھر آپ کی رائے درست نہ ہونے کی وجہ سے قرآن نازل ہوا:
﴿عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ.﴾ (التوبہ: ۴۳)
’’اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے، آپ نے انہیں اجازت کیوں دی؟ یہاں تک کہ آپ کو سچے اور جھوٹے لوگوں کے بارے وضاحت اور علم ہو جا تا۔‘‘
اگر یہ بات صرف آپ کی طرف سے صادر ہوئی، کیوں کہ جب آپ کو اپنی رائے صحیح نہ ہونے کا احساس ہوگیا تھا اور آپ اپنی ندامت کو بیان کرنا چاہتے تھے تو پھر آپ خود ایسے سخت الفاظ بیان نہ کرتے۔
ایسی ہی ڈانٹ کا معاملہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کے بارے میں ہے، اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ