کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 66
بے بس تھے اور یہ چیز آپ کی قیادت کو تسلیم کروانے کے لیے کافی تھی کہ آپ واحد شخص ہیں جنہوں نے وہ کام کر دکھایا جو کسی اور میں کرنے کی ہمت نہیں ۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آپ نے قرآن کریم کو اللہ کی وحی اس لیے قرار دیا کہ اللہ کے کلام کو آپ کے کلام سے زیادہ احترام اور عزت مل جائے ، تاکہ لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف مائل کرنے اور اپنی بات منوانے میں تعاون حاصل ہو سکے، کیوں کہ آپ نے اپنا کلام بھی پیش کیا جسے حدیث نبوی کہا جاتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے آپ کی اطاعت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور اگر یہ معاملہ ان منکرین وحی کے خیال کے مطابق ہی ہوتا تو آپ اپنے فرامین یعنی حدیث کو بھی کلامِ الٰہی ہی کہے دیتے۔ ان لوگوں کے اس دعویٰ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ مفروضہ قائم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام بھی ان قائدین میں سے ہیں جو کہ جھوٹ اور جعل سازی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے تاریخی پہلو ایسے مفروضات کا انکار کرتے ہیں ، کیوں کہ ہر طرف آپ کی صداقت وامانت کا چرچا تھا اور اس کی گواہی آپ کے دوستوں سے بھی پہلے آپ کے دشمنوں نے دی تھی۔ منافقوں نے آپ علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا ، اس بہتان کا آپ کی عزت وعظمت سے تعلق تھا، وحی میں بھی تاخیر ہوئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ بھی پریشانی کا شکار ہوئے یہاں تک کہ کلیجے منہ کو آنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تحقیق وتفتیش اور مشاورت میں اپنی تمام کوشیش بروئے کار لائے، اسی حالت میں ایک ماہ گزر گیا بالآخر آپ نے اپنی بیوی سے صرف اتنا کہا کہ ’’مجھے یہ یہ خبر ملی ہے، اگر تو تمہارا دامن پاک ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بے گناہ قرار دے دے گا اور اگر کوئی غلطی تم سے سرزد ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے بخشش کا سوال کرو۔‘‘ (صحیحین میں حدیث افک کے نام سے یہ حدیث موجود ہے اور سورۃ النور میں اس واقعہ کی جزئیات بیان ہوئی ہیں ) وحی نازل ہونے تک یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا اور اگر قرآن کریم آپ کا اپنا کلام ہوتا تو پھر آپ کو کس نے روکا تھا کہ باتیں بنانے والوں اور بہتان لگانے والوں کی زبانیں بند کرنے کے