کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 65
وحی کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’اَلنَّفَثُ فِی الرَّوْعِ‘‘ یعنی دل میں پھونکنے کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں : (( اِنَّ رُوْحَ القُدُسِ نَفَثَ فِی رَوعیِ اَنَّہٗ لَنْ تَموتَ نفسٌ حتیٰ تَسْتَکْمِلَ رِزْقھا وَاَجْلَھَا، فَاتْقُوْاللّٰہ واجْمَلُوْا فِی الطَّلبِ۔)) (رواہ ابو نعیم فی الحلیۃ بسند صحیح) ’’روح القدس نے میرے دل میں یہ پھونکا کہ کوئی بھی جان اپنا رزق اور وقت پورا کیے بغیر نہیں مرتی، اس لیے اللہ سے ڈر اور طلبِ رزق میں بہتر رویہ اختیار کرو۔‘‘ حدیث سے وحی کی اس حالت کے مستقل ہونے کا پتا نہیں چلتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ صورت بھی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بیان ہونے والی دونوں حالتوں میں کسی ایک سے تعلق رکھتی ہو، یعنی فرشتہ گھنٹی کی آواز کی طرح آتا ہو اور دل میں پھونک دیتا ہو، یا انسانی شکل اختیار کر کے دل میں پھونکتا ہو، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پھونکنے کی حالت نزولِ قرآن کے علاوہ دوسری وحی کے لیے ہو۔ منکرین وحی کے شبہات اور ان کا رد: قدیم اور جدید جاہلوں نے سرکشی اور تکبر کی وجہ سے وحی کے بارے بہت ہی کمزور اور ناقابل قبول شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جن میں سے کچھ کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے: پہلا شبہ:…ان کے خیال میں قرآن کریم وحی نہیں ، بلکہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام ہے اور آپ نے اس کا اسلوب اور معانی خود ایجاد کیے ہیں ۔ جواب:… ان کا یہ خیال باطل ہے، کیوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے لیے قائد ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور اپنی قیادت کی تائید کے لیے معجزات کے ساتھ چیلنج کرتے تھے تو پھر کیا وجہ تھی کہ آپ جن چیزوں کے ساتھ چیلنج کرتے انہیں کسی دوسرے کی طرف منسوب کریں ، آپ قرآن کو اپنی طرف بھی منسوب کر سکتے تھے، جو کہ آپ کی عظمت اور قیادت کو تسلیم کرنے کے لیے کافی تھا کیوں کہ تمام عرب اپنی فصاحت وبلاغت کے باوجود قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے