کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 64
شکل میں جائیں تاکہ وہ مانوس ہو جائیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وحی کی پہلی صورت جو گھنٹی کی آواز کی طرح آتی تھی اس میں انس کا پہلو نہیں ہے، بلکہ اس میں رسول کو ایک سخت صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ وہ اپنی روحانی کیفیت کو بہت بلند کر دیں تاکہ فرشتے سے مناسبت ہو سکے اور رسول کے لیے یہ حالت بہت گراں ہوتی تھی۔ ابن خلدون کہتے ہیں : ’’اس صورت میں رسول کو انسانی جسم سے نکل کر فرشتے کی روحانیت سے اتصال کرنا ہوتا ہے۔ ‘‘ جب کہ دوسری حالت اس کے برعکس ہے، اس میں فرشتہ اپنی خالص روحانیت سے نکل کر انسانی جسم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور یہ دونوں حالتیں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں بیان ہوئی ہیں ، فرماتی ہیں : حارث بن ہشام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ کیفیت میرے لیے بہت گراں ہوتی ہے اور جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو اس (فرشتے) کی کہی ہوئی بات مجھے یاد ہو چکی ہوتی ہے، اور کبھی فرشتہ میرے لیے انسانی شکل اختیار کرتا ہے، پھر مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے تو میں اس کی بتائی ہوئی باتیں یاد کر لیتا ہوں۔ نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آنے والی اس سختی کا بھی تذکرہ کیا ہے، فرماتی ہیں : ’’میں نے سخت سردی کے دن آپ علیہ السلام پر وحی نازل ہوتے ہوئے آپ کو دیکھا، جب وحی ختم ہوئی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا تھا۔‘‘ (بخاری) یہ دونوں حالتیں کلامِ الٰہی کی ان تین اقسام میں سے تیسری قسم ہے، جس کا اشارہ آیت میں ہوا ہے۔ پہلی قسم:…الا وحیاً، بذریعۂ وحی دوسری قسم:… مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ پردے کے پیچھے سے۔ تیسری قسم:… اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ یعنی فرشتے کے ذریعے وحی بھیجنا۔