کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 62
صحیح بخاری میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں : ((لَمْ یَبِقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ۔ قَالُوْا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: ’’الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ۔)) انبیاء علیہم السلام کے سچے خواب اس کلامِ الٰہی کی ایک قسم ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوحِیَ بِاِِذْنِہِ مَا یَشَائُ اِِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ.﴾ (الشورٰی: ۵۱) ’’ناممکن ہے کہ کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے، بے شک وہ برتر اور حکمت والا ہے۔‘‘ بلاواسطہ پردے کے پیچھے سے اللہ کا کلام کرنا، وہ بھی حالت بیداری میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے ثابت ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے : ﴿وَ لَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ﴾ (الاعراف: ۱۴۳) ’’جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے وعدہ کے مطابق آئے تو ان کے رب نے ان سے کلام کیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میرے رب! مجھے اپنا آپ دکھا، تاکہ میں آپ کو دیکھ سکوں ۔‘‘ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا.﴾ (النساء: ۱۶۴) ’’اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کی۔‘‘ اسی طرح معراج اور اسراء میں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا ثابت ہے۔‘‘ وحی کی یہ دوسری قسم ہے جو مذکورہ آیت میں اَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ کے ساتھ بیان ہوئی ہے، قرآن کریم اس وحی کے ذریعہ بھی نازل نہیں ہوا۔