کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 61
سَتَجِدُنِی اِِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ. فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ. وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّااِِبْرٰہِیْمُ. قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ. اِِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلَائُ الْمُبِیْنُ. وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ. وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِیْن. سَلَامٌ عَلٰی اِِبْرٰہِیْمَ. کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ. اِِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ. وَبَشَّرْنَاہُ بِاِِسْحَاقَ نَبِیًّا مِنْ الصَّالِحِیْنَ.﴾ (الصافات: ۱۰۱۔۱۱۲)
’’ہم نے انہیں ایک بردبار بیٹے کی خوش خبری دی، جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے بھاگنے کے قابل ہوا تو انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! بے شک میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ، دیکھو! تمہاری کیا رائے ہے؟ (بیٹے نے) کہا: اے ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے وہ کر گزریں ، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گئے۔ چناں چہ جب وہ دونوں فرماں برداری پر تل گئے اور انہوں نے اسے پیشانی کے بل لٹا لیا تو ہم نے انہیں آواز دی: اے ابراہیم! بے شک آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا ہے، ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں ۔ بے شک یہ بہت بڑی آزمائش ہے اور ہم نے اس کے بدلے اسے عظیم ذبیحہ کا فدیہ دیا اور بعد میں آنے والوں کو اسی پر چھوڑ دیا ہے۔ ابراہیم پر سلامتی ہو، ہم محسنین کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ بے شک وہ ہمارے ایمان والے بندوں میں سے تھے اور ہم نے انہیں صالح نبی اسحاق کی خوش خبری دی۔‘‘
اگر یہ خواب ایسی وحی نہ ہوتا جس پر عمل کرنا واجب ہے تو ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا اقدام نہ کرتے اور اللہ تعالیٰ فدیہ دے کر احسان نہ فرماتے۔ سچے خواب صرف رسول کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ ان کا تعلق اہل ایمان کے ساتھ بھی ہوتا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ عام لوگوں کے خواب وحی نہیں ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنْقَطَعَ الْوَحْیُ وَبَقِیَ الْمُبَشِّرَاتُ ، رُؤْیَا الْمُؤْمِنُ۔))
’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور مبشرات یعنی مومنین کے سچے خواب باقی ہیں ۔‘‘