کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 59
رہی تیسری رائے تو وہ سنت کے لیے زیادہ موزوں ہے، کیوں کہ اس کا مفہوم اللہ کی طرف سے بواسطہ جبریل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کیا جاتا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی عبارت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، فرمان الٰہی ہے:
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی.اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی.﴾ (النجم: ۳۔۴)
’’وہ اپنی خواہش سے گفتگو نہیں کرتے، ان کی طرف تو وحی کی جاتی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حدیث کی روایت بالمعنیٰ کی اجازت صرف ایسے ماہر شخص کو دی جاتی ہے جو اس کے معانی کو تبدیل نہ ہونے دے۔
گزشتہ اوراق میں ہم قرآن کریم، حدیث قدسی اور حدیث نبوی کے فرق کو بیان کر چکے ہیں ، اب ہم قرآن کی خصوصیات بیان کرتے ہیں ۔
قرآن کریم کی خصوصیات:
1۔ ایسا کلام بنانے سے لوگ عاجز ہیں ۔
2۔ یہ قطعی الثبوت ہے۔
3۔ اس کی تلاوت عبادت ہے۔
4۔ اس کی تلاوت اس کے الفاظ کے مطابق کرنا ضروری ہے۔
جب کہ حدیث قدسی کے بارے اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس کے الفاظ اللہ کی طرف سے ہیں تو بھی وہ اس مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتی۔
حدیث نبوی کی دو اقسام ہیں :
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد:… یہ وحی نہیں ہوتی اور جب یہ اجتہاد درست ہو تو وحی سکوت کے ساتھ اسے برقرار رکھتی ہے۔
2۔ جس کا مفہوم وحی کیا گیا ہو اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں :… اسی لیے اس کی روایت بالمعنیٰ جائز ہے۔
راحج قول کے مطابق حدیث قدسی کا مفہوم وحی کیا جاتا ہے نہ کہ الفاظ، یہ حدیث نبوی کی دوسری قسم میں شمار ہوتی ہے اور اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لیے کی جاتی ہے کہ اس پر ایک شرعی