کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 58
3: جبریل علیہ السلام کو مفہوم دیا گیا اور یہ قرآن جبریل یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں ۔ ان میں پہلی رائے صحیح ہے اہل السنہ والجماعہ نے اسے ہی اختیار کیا ہے اورنواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ نیز قرآن کریم کی بہت سی آیات میں قرآن کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے۔ ﴿وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ.﴾ (النمل: ۶) ’’اور بلاشبہ آپ کو قرآن ایک کمال حکمت والے، سب کچھ جاننے والے کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔‘‘ ﴿وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ: ۶) ’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔‘‘ ﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ہٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَآیِٔ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ﴾ (یونس: ۱۵) ’’اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے، کہتے ہیں : کوئی قرآن اس کے سوا لے آ، یا اسے بدل دے۔ کہہ دیجئے میرے لیے ممکن نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں ، میں پیروی نہیں کرتا، مگر اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔‘‘ ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں ، نہ کہ جبریل علیہ السلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ جب کہ دوسری رائے کا کوئی اعتبار نہیں ، کیوں کہ قرآن کریم کا لوحِ محفوظ میں پایا جانا بالکل اسی طرح ہے جس طرح باقی پوشیدہ امور اس میں پائے جاتے ہیں ، قرآن کریم کو ان جملہ امور سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔