کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 57
اور فرمایا: ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ﴾ (البقرہ: ۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کو اتارا گیا۔‘‘ سنت مطہرہ میں اس نزول کی وضاحت کی گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہ نزول نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہرپر کیا گیا۔ چناں چہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے، فرماتے ہیں : ’’قرآن کریم مکمل طور پر ایک ہی مرتبہ لیلۃ القدر میں آسمان دنیا پر اتارا گیا، پھر بیس سال کی مدت میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر) اتارا گیا، پھر انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی: ﴿وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا.﴾ (الفرقان: ۳۳) ’’اور وہ آپ کے پاس کوئی مثال نہیں لاتے مگر ہم آپ کے پاس حق اور بہترین تفسیر لاتے ہیں ۔‘‘ پھر اس آیت کی بھی تلاوت کی: ﴿وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّ نَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا.﴾ (الاسراء: ۱۰۶) ’’ہم نے قرآن کو جدا جدا کر دیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سنائیں اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا ہے۔‘‘ (حاکم، بیہیقی، نسائی) ایک اور روایت میں ہے کہ قرآن کریم کو ذکر سے الگ کر کے آسمان دنیا پر بیت العزہ میں رکھا گیا، پھر جبریل علیہ السلام اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لاتے رہے۔ (حاکم، ابن ابی شیبہ) اس لیے اللہ تعالیٰ کے جبریل علیہ السلام کی طرف قرآن کو وحی کرنے کے انداز کے بارے میں اہل علم مختلف آراء رکھتے ہیں : 1: جبریل علیہ السلام نے اسے مخصوص الفاظ کے سماع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے حاصل کیا۔ 2: جبریل علیہ السلام نے اسے لوحِ محفوظ سے یاد کیا۔