کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 56
پہلے سر اٹھاتے ہیں تو اللہ اپنے ارادے کے مطابق ان سے وحی کے بارے بات کرتے ہیں ، پھر جبریل فرشتوں کے پاس سے گزرتے ہیں ، وہ جس آسمان سے بھی گزرتے ہیں اس آسمان والے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں : اے جبریل! ہمارے رب نے کیا فرمایا؟تو جبریل کہتے ہیں : اس نے حق بات ارشاد فرمائی اور وہ بلند وبرتر ذات ہے۔ پھر تمام فرشتے جبریل کی بات کو دہراتے ہیں ، چناں چہ جبریل اس بات کو وہاں لے جاتے ہیں جہاں اللہ کی طرف سے انہیں حکم ملا ہوتا ہے۔ (طبرانی) اس حدیث سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیفیتِ وحی، فرشتوں کا کلامِ الٰہی کو سننا ہے، جس کی وجہ سے ان پر سخت گھبراہٹ ہوتی ہے۔ جب کہ بظاہر وحی جبریل علیہ السلام کا گزرنا اور آخر میں وحی کا نزول ہونا صرف قرآن کریم کے لیے خاص ہونے کی علامت ہے، لیکن اس کی ابتداء وحی کی عام کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی اصل صحیح حدیث میں اس طرح ہے کہ ’’جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی معاملے کا فیصلہ کرتے ہیں تو فرشتے فرمانِ الٰہی کی تعمیل کے اظہار کے لیے اپنے پر اس طرح مارتے ہیں جیسے کسی چٹان پر زنجیر برستی ہے۔ 2۔ یہ بھی ثابت ہے کہ قرآن کریم لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ. فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ.﴾ (البروج: ۲۱۔۲۲) ’’بلکہ وہ قرآن مجید ہے جو لوح محفوظ میں ہے۔‘‘ نیز یہ بھی ثابت ہے کہ قرآن کریم رمضان کے مہینے کی لیلۃ القدر میں مکمل طور پر آسمان دنیا پر بیت العزۃ میں اتارا گیا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِِنَّآ اَنزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ.﴾ (القدر: ۱) ’’ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل کیا۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿اِِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبٰرَکَۃٍ اِِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ.﴾ (الدخان: ۳) ’’ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا، بے شک ہم بھی ڈرانے والے ہیں ۔‘‘