کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 55
فرمان الٰہی ہے :
﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَآئَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرہ: ۳۰)
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ، انہوں نے کہا: کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو بنا رہے ہیں جو اس میں فساد اور خون ریزی کرے گا۔‘‘
اسی طرح ان کی طرف اشارہ کرنے کا بھی ثبوت ہے:
﴿ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (الانفال: ۱۲)
’’جب آپ کے رب نے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، چناں چہ تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ۔‘‘
نیز یہ بھی ثابت ہے کہ فرشتے حکمِ الٰہی کے مطابق کائنات کے امور کو سرانجام دے رہے ہیں :
﴿فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا.﴾ (الذاریات: ۴)
’’کام کو تقسیم کرنے والے ہیں ۔‘‘
﴿فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا.﴾ (النازعات: ۵)
’’معاملات کی تدبیر کرنے والے ہیں ۔‘‘
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی واسطہ کے فرشتوں سے ایسا کلام کرتے ہیں جسے وہ سمجھتے ہیں ، نیز حدیث نبوی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب اللہ کسی معاملے میں وحی کا ارادہ کرتے ہیں پھر جب اس وحی کی کلام کرتے ہیں تو خوفِ الٰہی سے آسمانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، پھر جب آسمان والے اسے سنتے ہیں تو وہ چیخ وپکار کرتے ہیں اور سجدے میں گر جاتے ہیں ، پھر جبریل سب سے