کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 54
جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (الانفال: ۱۲)
’’جب آپ کے رب نے فرشتوں کی طرف وحی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، چناں چہ تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ۔‘‘
6۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیا علیہم السلام کی طرف وحی کرنا۔
اہل علم نے اس کی شرعی تعریف اس طرح کی ہے:
((کَلَامُ اللّٰہِ تَعَالٰی الْمُنَزَّلُ عَلٰی نَبِیٍّ مِنْ اَنْبِیَآئِہِ۔))
’’اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے انبیاء میں سے کسی نبی پر نازل کیا گیا ہو۔‘‘
یہاں پر وحی مفعول کے معنی میں ہے یعنی ’’جو کلام نازل کیا گیا ہے۔‘‘
استاد محمد عبدہ رحمہ اللہ ’’رسالۃ التوحید‘‘ میں وحی کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :
’’وحی ایک ایسی معرفت ہے جو انسان اپنے دل میں اس یقین کے ساتھ پاتا ہے کہ یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اللہ کی طرف سے ہے۔ کبھی یہ آواز کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی بلاآواز، وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ الہام اس معرفت کا نام ہے جس پر دل کو یقین کامل ہوتا ہے اور اس کے مطلوب پر وہ غیر شعوری طور پر چل پڑتا ہے، حالانکہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ایسا یقین اسے کہاں سے ملا اور اس کی کیفیت بھوک پیاس خوشی اور غم کی طرح ہی ہوتی ہے۔‘‘[1]
وحی کی یہ تعریف اس کے مصدری معنی کے مطابق ہے۔ شروع میں اگرچہ یہ شبہ پڑتا ہے کہ وحی بھی خود کلامی یا کشف کے مشابہ ہے، لیکن گزشتہ تعریف میں الہام اور وحی کے فرق کو جس طرح واضح کیا گیا ہے اس سے اس شبہ کا ازالہ ہو جاتا ہے۔
فرشتوں کی طرف وحی الٰہی کی کیفیت:
1۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے کلام کرنا ثابت ہے۔
[1] دیکھیے کتاب الوحی المحمدی، الشیخ محمد رشید رضا، ص: ۴۴۔