کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 52
اس لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نازل ہونا کوئی حیرت وتعجب کی بات نہیں ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عقل پرستوں (فلاسفہ) کے عقائد کے ردّ میں یہ آیت نازل فرمائی:
﴿اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ.﴾ (یونس: ۲)
’’کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک آدمی کی طرف وحی فرمائی، تاکہ وہ لوگوں کو تنبیہ فرمائے اور ایمان لانے والوں کو خوش خبری دے کہ ان کے رب کے پاس ان کی آمد بہت خوب ہوگی، جب کہ کافر یہ کہتے ہیں کہ یہ واضح جادوگر ہے۔‘‘
وحی کا مطلب:
جب کوئی انسان کسی شخص سے اس انداز سے بات کرے کہ کسی دوسرے کو اس بارے علم نہ ہونے پائے تو اس کے لیے عربی زبان میں ’’وَحَیْتُ اِلَیْہِ وَاَوْحَیْتُ‘‘ یعنی ’’میں نے اس کی طرف وحی کی‘‘ بولا جاتا ہے۔ وحی تیز اشارے کو کہا جاتا ہے، یعنی اشارے اور کنائے سے ہونے والی گفتگو کو وحی کہا جاتا ہے۔ یہ کبھی صرف آواز سے ہوتی ہے اور کبھی جسم کے کسی حصے کے ساتھ اشارہ کرنے سے ہوتی ہے۔
وحی مصدر ہے اور اس کا مادہ (و، ح، ی) دو اصلی معانی پر دلالت کرتا ہے، یعنی ’’پوشیدہ اور تیزی۔‘‘ اس لیے وحی کا معنی یہ کیا گیا ہے کہ پوشیدہ طور پر بڑی تیزی کے ساتھ کسی خاص آد می کو خبر دینا کہ کسی دوسرے کو خبر نہ ہونے پائے۔ یہ تو مصدر کا معنی ہے ، جب کہ اسم مفعول جس چیز کی وحی کی جاتی ہے اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
لغوی لحاظ سے وحی کے درج ذیل معانی ہیں :
1۔ انسان کو فطری الہام ہونا: جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کی طرف وحی ہوئی، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ﴾ (القصص: ۷)