کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 51
ہم میں سے کون ہے جو بیداری یا نیند کی حالت میں اپنے ذہن میں ابھرنے والے خیالات کی وجہ سے اپنے آپ سے گفتگو نہیں کرتا، حالانکہ اس کے پاس بات کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
یہ اور اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جن کی بدولت ہم پر وحی کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔وحی کو اس دور کے لوگوں نے دیکھا، اسے ان تمام شرائط کے ساتھ، جو علمِ یقینی کا فائدہ دیتی ہیں ، اپنے بعد والے لوگوں تک منتقل کیا۔
انسانیت نے وحی قبول کرنے والی امت کی معاشرت پر وحی کے اثرات کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ جب تک وہ احکامِ وحی پر عمل کرتے رہے تو وہ باوقار اور طاقت ور تھے اور جب اس بارے سستی دکھائی تو وہ پستی میں جا گرے اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن گئی۔
ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وحی کے امکان اور ثبوت میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، چناں چہ اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ دوبارہ اسی وحی سے رہنمائی لی جائے تاکہ اس کے ساتھ انسانی تشنگی کو دور کیا جا سکے اور روحانی طور پر سکون حاصل کیا جا سکے۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی پہلے رسول نہیں جن کی طرف وحی کی گئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے پہلے بھی تمام رسولوں کی طرف وحی کی ، فرمان الٰہی ہے:
﴿اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ہٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا. وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا.﴾
(النساء: ۱۶۳۔۱۶۴)
’’یقینا ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی جیسے کہ نوح( علیہ السلام ) اور ان کے بعد والے انبیاء کی طرف کی، اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق (علیہم السلام ) ان کی اولاد عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان( علیہم السلام ) کی طرف وحی کی اور ہم نے داؤد( علیہ السلام ) کو زبور عطا کی اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کیے اور موسیٰ( علیہ السلام ) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔‘‘