کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 504
مثلاً عقلی علوم کے مسائل اور ان کی اصطلاحات وغیرہ۔ جس کی وجہ سے یہ تفسیر روحانیت اور ہدایات اسلام سے خالی ہے۔ اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ اس میں سوائے تفسیر کے ہر چیز ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔ 6۔ زمخشری نسب وحالات: ابوالقاسم محمود بن عمر خوارزمی زمخشری، ان کی ولادت ۲۷ رجب ۴۶۷ ہجری میں خوارزم ہی ایک بہت بڑی بستی زمخشر میں ہوئی۔ اپنے شہر میں علم حاصل کیا پھر حصولِ علم کے لیے بخاریٰ کا سفر کیا، وہاں اپنے استاد منصور ابومضرسے ادب کا علم حاصل کیا، پھر مکہ چلے گئے اور وہاں کافی عرصہ گزارا۔ اسی لیے انہیں جاراللہ بھی کہا جاتا ہے۔ وہیں انہوں نے اپنی تفسیر ’’الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التاویل‘‘ لکھی اور مکہ سے آنے کے بعد خوارزم کے محلہ جرجانیہ میں ۵۳۸ ہجری میں وفات پائی۔ ان کے بعد کچھ لوگوں نے اشعار کی صورت میں ان پر مرثیے بھی لکھے جن کا ایک شعر ہے۔ فارض مکۃ تذری الدمع مقلتھا حُزنا لفرقۃ جار اللّٰه محمود سرزمینِ مکہ کی آنکھیں جاراللہ محمود کی جدائی کے غم میں خوب آنسو بہا رہی ہیں ۔ علمی مرتبہ اور تالیفات: زمخشری کا شمار لغت، معانی اور بیان کے ائمہ میں ہوتا ہے، نحوو بلاغت کی کتابوں میں قاری کو بہت سی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو ان کی کتابوں سے بطور استشہاد ذکر کی جاتی ہیں ۔ چناں چہ وہ دلیل کے طور پر کہتے ہیں : زمخشری نے اپنی کشاف میں یہ کہا ہے یا اساس البلاغہ میں یہ کہا ہے۔ بہت سے عربی مسائل میں صاحب رائے وحجت ہیں ، ان کا تعلق ان لوگوں سے نہیں ہے جو دوسروں کا انداز اپنا کر صرف جمع ونقل پر اکتفا کرتے ہیں بلکہ یہ صاحب رائے ہیں دوسرے لوگ ان کے انداز کو اپناتے اور ان سے نقل کرتے ہیں ۔ انہوں نے حدیث، تفسیر، نحو، لغت، معانی اور بیان میں کتابیں تصنیف کیں جن میں سے کچھ