کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 502
تفسیر ابن کثیر:
ابنِ کثیر کے بارے محمد رشید رضا کہتے ہیں :
’’یہ تفسیر اس لحاظ سے بہت مشہور ہے کہ اس میں اسلاف سے منقول تفسیر پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ اسی طرح آیات کے معانی واحکام کو بیان کیا گیا ہے۔ نیز اس میں ان اعرابی مباحث بلاغت کے نکات اور غیر ضروری علوم سے اجتناب کیا گیا ہے جن کی فہم قرآن کے لیے ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کا تعلق نصیحت و فقاہت سے ہوتا ہے۔
اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں تفسیر القرآن بالقرآن کا التزام کیا گیا ہے۔ معانی بیان کرنے کے لیے مناسب آیات ذکر کی جاتی ہیں ، اس کے بعد آیت سے متعلقہ احادیث مرفوع، پھر اقوال صحابہ، اقوال تابعین اور بعد میں علماءِ اسلاف کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح تفسیر بالماثور میں منقول منکر اسرائیلیات کا ذکر کر کے ان سے اجمالی طور پر باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ لیکن بعض منکر روایات کو خاص طور پر ذکر کرتے ہیں ۔
کاش! وہ ان بارے خوب جانچ کر لیتے یا ایسی روایات کو بیان نہ کرتے جن میں تحقیق وتمحیص کے مکمل اسباب موجود نہیں تھے۔
5۔ فخر الدین رازی
نسب وحالات:
محمد بن عمر بن حسن تمیمی، البکری، طبرستانی، رازی، فخر الدین جو کہ ابن الخطیب شافعی کے لقب سے معروف ہیں ۔ فقیہ تھے، ۵۴۳ ہجری ’’کورَے‘‘ میں پیدا ہوئے اور ۶۰۶ ہجری میں ’’بہراۃ‘‘ میں وفات پائی۔
علوم دینیہ اور علومِ عقلیہ حاصل کیے، منطق اور فلسفہ میں مہارت حاصل کی اور علم الکلام میں خوب شہرت حاصل کی۔ ان تمام علوم میں انہوں نے کتب، شروحات اور تعلیقات لکھیں ۔ یہاں تک کہ اس دور کے عظیم فلاسفہ میں ان کا شمار ہونے لگا اور اسلامی فلاسفہ کے لیے ان کی کتابیں آج تک مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں ۔