کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 499
مالک عبداللہ بن سائب مخزومی اور خلق کثیر سے روایت کرتے ہیں ۔ جب کہ ان سے عطاء، عکرمہ، عمرو بن دینار، قتادہ، سلیمان احول، سلیمان اعمش، عبداللہ بن کثیر القاری اور دیگر لوگ روایت کرتے ہیں ۔ ان کی ولادت ۲۱ ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی اور ۱۰۲ یا ۱۰۳ ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ یحییٰ القطان ۱۰۴ ہجری کہتے ہیں ۔
علمی حیثیت:
مجاہد بن جبر تابعین کے طبقہ میں رئیس المفسرین ہیں ، یہاں تک کہ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ تفسیر کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے تیس مرتبہ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے تفسیر پڑھی۔ کہتے ہیں : میں نے تیس مرتبہ ابنعباس رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھا، میں ہر آیت پر ٹھہرتا اور اس کے نزول کے سبب اور کیفیت کے بارے پوچھتا۔
سفیان ثوری کہتے ہیں : جب آپ کے پاس مجاہد کی تفسیر آجائے تو آپ کو وہی کافی ہے۔
امام ابن تیمیہ کہتے ہیں : یہی وجہ ہے کہ امام شافعی، بخاری اور دیگر اہل علم تفسیر کے معاملہ میں انہی پر اعتماد کرتے ہیں ۔ ابوحاتم کہتے ہیں : مجاہد نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع نہیں کیا، ان سے لی گئی روایت مرسل ہوتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مجاہد کی سعد، معاویہ اور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہم سے لی گئی روایت بھی مرسل ہے۔
ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ یحییٰ القطان کہتے ہیں : مجاہد کی مرسل روایات مجھے عطاء کی مرسلات سے زیادہ اچھی لگتی ہیں ۔
قتادہ کہتے ہیں : موجودہ لوگوں میں تفسیر کے سب سے بڑے عالم مجاہد ہیں ۔
ابنِ سعد کہتے ہیں : مجاہد ثقہ، فقیہ، عالم اور کثیر الحدیث تھے۔ ابن حبان کہتے ہیں : فقیہ، پرہیزگار، عابد اور متقن تھے۔
امام ذہبی ان کے حالات کے آخر میں ذکر کرتے ہیں ۔ مجاہد کی امامت اور ان سے دلیل لینے کے معاملے میں امت کا اجماع ہے۔ اور کہتے ہیں کہ عبداللہ بن کثیر ان کے شاگرد تھے۔
سفیان ثوری کا یہ کہنا کہ ’’جب تمہارے پاس مجاہد کی تفسیر آجائے تو تمہیں کافی ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مجاہد کی طرف منسوب ہر بات کو لے لیں ، کیوں کہ مجاہد بھی دوسرے