کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 498
جمع کیا گیا ہے۔ جسے ’’تفسیر ابن عباس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مختلف روایات اور مختلف طرق ہیں ۔ لیکن سب سے اچھا طریق علی ابن طلحہ ہاشمی کا طریق ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسی طریق پر اعتماد کیا ہے۔ جب کہ قیس بن مسلم عن عطاء بن السائب کا طریق بھی جید ہے۔ ابن عباس کی طرف منسوب لمبی لمبی تفاسیر میں بہت جگہ مجہول راوی ہیں ۔ سب سے کمزور طریق کلبی بواسطہ ابوصالح کا طریق ہے۔ اور الکلبی، ابونصر محمد بن سائب۔ (متوفی: ۱۴۶ ہجری) ہے۔ اگر اس کے ساتھ محمد بن مروان السدی الصغیر (متوفی: ۱۸۶ ہجری) کی روایت ملا دی جائے تو یہ جھوٹ کی کڑی بن جاتی ہے۔ مقاتل بن سلیمان ازدی کا طریق بھی ایسا ہی ہے۔ لیکن کلبی کو اس پر برتری حاصل ہے اس لیے کہ مقاتل کا مذہب بہت ہی برا تھا۔ ایک طریق ضحاک بن مزاحم عن ابن عباس ہے جو کہ منقطع ہے؛ کیوں کہ ضحاک کی ابنِ عباس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اور اگر اس کے ساتھ بشر بن عمارہ کی روایت کو بھی ملایا جائے تو بھی یہ بشر کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اور اگر یہ حویبر عن الضحاک کی روایت ہے تو اس میں ضعف بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ حویبر بہت ہی ضعیف اور متروک راوی ہے۔ ایک طریق عوفی کا ہے جس کے ذریعے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بہت کچھ روایت کیا ہے۔ عوفی ضعیف ہے لیکن واہی نہیں ہے۔ امام ترمذی اس کی روایت کو بسا اوقات حسن کہہ دیتے ہیں ۔ ہماری اس تقسیم سے قاری کو جید، مقبول، ضعیف اور متروک طریق کا پتا چل جائے گا، اور یہ بھی کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہر چیز صحیح ثابت نہیں ہے اور اس کے متعلق ہم تفسیر کے بیان میں گفتگو کر چکے ہیں ۔ 2۔ مجاہد بن جبر نسب وحالات: یہ ابوالحجاج مجاہد بن جبر مکی، مخزومی المقرئی ہیں ۔ سائب بن ابوسالک کی طرف سے انہیں آزادی دی گئی تھی۔ علی، سعد، عبادلہ اربعہ، رافع بن خدیج، عائشہ، ام سلمہ، ابوہریرہ، سراقہ بن