کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 497
شاید اللہ تعالیٰ ابنِ عباس کو ان کا قائم مقام بنا دے۔ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے علم وفہم کی بناء پر اپنے بچپن میں ہی کبار صحابہ میں اپنی جگہ بنالی تھی اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی بدولت تھا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ساتھ چمٹا کر دعا کی: ’’اے اللہ اسے حکمت عطا فرما۔‘‘ معجم البغوی وغیرہ میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ، ابن عباس کو اپنے قریب رکھتے اور کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے تمہیں دعا دی، تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور تمہارے منہ میں لعاب لگایا تھا اور دعا کی تھی: ’’اے اللہ! اسے دین کی فقاہت اور تاویل کا علم عطا فرما۔‘‘ امام بخاری نے سعید بن جبیر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : عمر رضی اللہ عنہ مجھے بدری صحابہ کے ساتھ شامل فرمایا کرتے تھے، تو کسی آدمی کو یہ بات ناگوار لگی، اس نے کہا: آپ اسے ہمارے ساتھ کیوں لاتے ہیں حالانکہ ہمارے بھی ایسے ہی بچے ہیں ؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے۔ پھر ایک عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بلا کر مجھے بھی ان کے ساتھ لے گئے۔ میرے خیال میں ان لوگوں کو دکھانے کے لیے مجھے بلایا تھا، کہنے لگے: تم لوگ آیت: ﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ.﴾ (نصر: ۱) کے بارے کیا کہتے ہو؟ کسی نے کہا: ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب ہمارے اوپر نصرت آئے یا ہمیں فتح ملے تو ہم اللہ کی حمدوثنا کریں اور اس سے استغفار کریں اور کسی نے کوئی جواب بھی نہ دیا۔ پھر مجھ سے کہنے لگے: ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ! تم بھی یہی کہتے ہو؟ میں نے کہا نہیں ، پوچھا: تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی موت کے بارے آگاہ کیا ہے۔ فرمایا: ﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ.﴾ (نصر: ۱) یہ (فتح مکہ) آپ کی موت کی علامت ہے، چناں چہ آپ اپنے رب کی حمد کریں اور اس سے استغفار کریں ، یقینا وہ ہمیشہ سے توبہ قبول کرنے والا ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس بارے میں بھی یہی کچھ جانتا تھا جو تم نے کہا ہے۔ آپ کی تفسیر: ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے تفسیر میں بہت کچھ مروی ہے جسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ایک مختصر تفسیر