کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 492
سے مشہور ہیں ، چوتھی صدی ہجری کے فقہ حنفی کے امام ہیں ۔ ان کی کتاب احکام القرآن فقہی تفسیر میں بہت اہم کتاب ہے، بالخصوص احناف کے نزدیک اس کا بہت بڑا مقام ہے۔
اس کتاب میں مؤلف نے صرف فروعی احکام سے متعلقہ آیات کی تفسیر پر ہی اکتفا کیا ہے، وہ ایک یا چند آیات ذکر کر کے پھر اس معنی کی منقول شرح ذکر کرتے ہیں ۔ پھر ایسے مسائل ذکر کرتے ہیں جن کا ان سے قریب یا دور کا تعلق ہو۔ اس کے بعد وہ مذہبی اختلافات کو بیان کرتے ہیں جس سے قاری یہ سمجھتا ہے کہ وہ فقہ کی کوئی کتاب پڑھ رہا ہے نہ کہ تفسیر کی۔
جصاص مذہب حنفیہ پر بہت ہی متعصب رویہ رکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب کے دفاع کے لیے آیات کی تفسیر میں تکلف اور تعصب سے کام لیا ہے، وہ اپنے مخالفین کا رد کرنے کے لیے انتہائی جارحانہ رویہ اپناتے جس کی وجہ بسااوقات کو دوسرے مذاہب پر بحث پڑھنے سے نفرت ہوجاتی ہے۔
جصاص کی تفسیر سے لگتا ہے کہ وہ عقائد میں معتزلہ کی طرف مائل تھا۔ مثلاً وہ آیت
﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ﴾ (الانعام: ۱۰۳)
کا معنی کرتا ہے: اسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں ، اور اس میں آنکھوں سے دیکھنے کی نفی کر کے مدح گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ﴾ (البقرہ: ۲۵۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے اونگھ اور نیند کی نفی کر کے اپنی مدح کی ہے۔ اس لیے اس کی کوئی ضد یا نقیض نہیں ہو سکتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے رویتِ ابصار کی نفی کر کے مدح کی ہے تو اس کی ضد کسی بھی حال میں ممکن نہیں کیوں کہ اس سے صفت نقص کا اثبات ہوگا۔ اسے آیت
﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ. اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ .﴾ (القیامۃ: ۲۲۔۲۳)
کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کئی معانی کا احتمال ہے، مثلاً ثواب کا انتظام کرنا، سلف کی ایک جماعت نے اس معنی کو بیان کیا ہے۔ جب اس میں تاویل کا احتمال ہے تو جس میں تاویل کا احتمال ہو اس کے ساتھ اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ رہیں روایت کے بارے مروی