کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 490
آجائے۔ دو لفظ ایک معنی میں نہیں آتے جس سے لغت اور تفسیر کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ ان الفاظ کی تعداد مترادفات کے لحاظ سے کم ہو یا زیادہ۔ بنت شاطی اس بات کو بہت معیوب سمجھتی ہیں کہ ہم ادب پڑھانے کے لیے قرآن کریم کی بجائے معلقات، نقائص، مفضلبات، خمریات اور حماسہ وغیرہ میں مگن ہو جائیں ۔ پھر کہتی ہیں : ہم یونیورسٹی میں درسِ تفسیر کے لیے اس عظیم خزانے کو چھوڑ دیتے ہیں اور ہم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو قرآن کریم کو خالص ادبی تدریس کے میدان میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ اسے ہم نے شعری دیوان اور امراء البیان تک محدود کر رکھا ہے۔ تفسیر بیانی میں بنت شاطی نے بعض مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں وہ بلاغت سے بھرپور قرآنی تفاسیر پر اعتماد کرتی ہیں اور قرآن کی اعلیٰ ادبی پیرائے میں تفسیر کرتی ہیں ۔ فقہاء کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنے عربی سلیقہ میں قرآن کریم کو سمجھا کرتے تھے اور اگر کسی آیت کی سمجھ نہ آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے اور آپ ان کے لیے وضاحت فرما دیا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو فقیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے خلفائے راشدین کی قیادت میں امت کی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا تو انہیں ایسے مسائل پیش آئے جن سے ان کا پہلے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ چناں چہ ان کے پاس صرف قرآن کریم ہی جائے پناہ تھی جس سے مسائل اخذ کر کے وہ نئے مسائل کا حل نکالتے اور اس مسئلہ میں ایک رائے پر اتفاق کر لیتے تھے، تعارض کے وقت وہ ایک دوسرے سے کم ہی اختلاف کرتے۔ جیسا کہ بیوہ حاملہ عورت کی عدت میں اختلاف ہوا، کہ وضعِ حمل عدت ہے یا چار ماہ دس یا پھر ان میں سے آخری مدت؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّ عَشْرًا﴾ (البقرہ: ۲۳۴) یعنی بیوہ عورت کی عدت چار ماہ دس ہے۔ جب کہ دوسری جگہ ہے: ﴿وَاُوْلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ﴾ (الطلاق: ۴)