کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 487
کرتے۔ اس لیے وہ شیخ محمد عبدہ کے علم کے اولین وارث بننے کے حقدار تھے اور اس کا ثمرہ ان کی تفسیر ’’تفسیر القرآن الحکیم‘‘ میں ظاہر ہوتا ہے جو کہ تفسیر المنار کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی نسبت وہاں سے شائع ہونے والے مجلہ المنار سے ہے۔ انہوں نے قرآن کے آغاز سے تفسیر شروع اور آیت ﴿رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ.﴾ (یوسف: ۱۰۱) تک پہنچے تو موت نے انہیں مہلت نہ دی، اس طرح وہ قرآن کی تفسیر مکمل نہ کر سکے اور اتنی سی تفسیر بارہ بڑی جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ یہ تفسیر اس امت کے اسلاف صحابہ وتابعین کے اقوال، عربی لغت کے اسالیب اور اجتماعیت کے بارے سننِ الٰہی سے بھری ہوئی ہے۔ یہ بہت ہی خوش نما اسلوب میں آیات کی شرح کرتے اور معانی کو آسان عبارت میں واضح کرتے ہیں ، نیز بہت سی مشکلات کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام کے بارے شبہات پیدا کرنے والوں کارد کرتے ہیں اور قرآنی رہنمائی سے معاشرتی بیماریوں کا علاج پیش کرتے ہیں ۔ الشیخ رشید رضا صراحت کرتے ہیں کہ اس تفسیر کا مقصد یہ ہے کہ ’’کتاب اللہ کو اس حیثیت سے سمجھا جائے کہ یہ ایسا دین ہے جو لوگوں دنیاوی واخروی زندگی میں سرخرو ہونے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔‘‘ ۳۔ ’’فی ظلال القرآن‘‘ از سید قطب: حسن البنا کی قائم کردہ تحریک اخوان المسلمین بلاشبہ موجودہ دور کی بہت بڑی تحریک ہے۔ اس کے مخالفین بھی اسلامی بیداری کے لیے اس تحریک کے ثمرات کا انکار نہیں کر سکتے۔ اس تحریک کی بدولت مسلم نوجوانوں کی تمام طاقتیں ، اسلام کی خدمت، اس کی شریعت کے احترام، کلمہ کی سربلندی، اس کی رفعتوں کی تعمیر اور اس کی شان وعظمت کو دوام بخشنے کے لیے تیار ہو ئیں ۔ اس جماعت کو پیش آنے والے حالات کے بارے کچھ بھی کہا جائے لیکن اس تحریک کے فکری اثرات کا کوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا۔