کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 486
وراثت کی پڑھائی سے بہتر ہے کیوں کہ وہ فرضِ کفایہ ہے۔ جب کہ یہ چیز اللہ کی معرفت میں اضافے کا باعث ہے اور ہر قدرت رکھنے والے پر فرضِ عین ہے۔‘‘ وہ غرور کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : ’’یہ علوم جنہیں ہم نے تفسیر قرآن میں داخل کیا ہے وہ علوم ہیں جن سے اسلام کے چھوٹے اور مغرور فقیہ اور جہلا غفلت برتتے رہے۔ یہ دورِ انقلاب اور حقائق کے ظہور کا دور ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ مؤلف نے اپنی کتاب میں بہت آمیزش کی ہے، انہوں نے اپنی تفسیر میں نباتات، حیوانات، قدرتی مناظر اور سائنسی تجربات کی تصویریں لگا دی ہیں ، ایسے لگتا ہے کہ یہ کسی سکول کی سائنس کی کتاب ہے، نیز انہوں نے بعض دینی حقائق کی شرح افلاطون کی جمہوریت کے انداز پر کی ہے جس کا ذکر اخوان الصفا نے اپنے رسائل وجرائد میں کیا ہے، وہ ریاضات کو بھی استعمال کرتا ہے اور قرآنی آیات کی تفسیر جدید سائنسی نظریات کے مطابق کرتا ہے۔ ہمارے نقطۂ نظر کے مطابق یہ تفسیر کر کے کوئی اچھا کام نہیں خواہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کیا ہے۔ عام اہلِ علم کے ہاں اس تفسیر کے مقبول نہ ہونے کی یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت تکلف سے کام لیتے ہوئے آیات کو ان کے غیر حقیقی معانی پر محمول کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس تفسیر کے بارے بھی وہی کچھ کہا گیا ہے جو فخرالدین رازی کی تفسیر کے بارے کہا جاتا ہے کہ ’’اس میں سوائے تفسیر کے ہر چیز موجود ہے۔‘‘ ۲۔ تفسیر المنار از سید محمد رشید رضا: شیخ محمد عبدہ نے علماء کی ترقی کے لیے بہت کام کیا، جس کے ثمرات ان کے تلامذہ میں بھی ظاہر ہوئے اور اس ترقی کا مرکزی نقطہ اسلامی بیداری اور اسلام کے اجتماعی مقاصد کا ادراک اور دین کی موجودہ مشکلات کا حل تھا۔ اس کی داغ بیل جمال الدین افغانی کی تحریک نے ڈالی اور شیخ محمد عبدہ ان کے شاگرد تھے۔ شیخ محمد عبدہ ازہر یونیورسٹی میں دروس دیا کرتے تھے، جن میں ان کے بہت سے شاگرد اور مریدین آتے۔ الشیخ رشید رضا تمام لوگوں سے بڑھ کر ان دروس میں شرکت کرتے اور انہیں خوب یاد