کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 485
بلاغت کے تمام فنون کو اس میں پرویا ہے کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ جو علم والے کے اوپر ایک علم والا ہوتا ہے۔ (مقدمہ ابن خلدون، ص: ۴۹۱) عصر حاضر کی مشہور تفاسیر ابتدائی مفسرین نے اپنی کتبِ تفاسیر میں نقلی اور عقلی دلائل کی خوب بھرمار کی ہے۔ نیز انہوں نے لغوی مباحث، بلاغت، نحو، فقہی، مذہبی اور مشاہداتی فلسفہ کو خوب بیان کیا ہے۔ پھر (لوگوں کی) ہمتیں جواب دے گئیں اور ان کے بعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے نقل، اختصار، اقتداء اور ترجیح کو ہی کافی سمجھا۔ پھر جب عصر حاضر میں علمی ترقی شروع ہوئی تو اس کا اثر تفسیر میں بھی آیا، جس کے لیے چند ایک تفاسیر کی مثالیں درج ہیں : ۱۔ الشیخ طنطاوی جوہری کی تفسیر ’’الجواہر فی تفسیر القرآن‘‘: شیخ طنطاوی جوہری کو وجود کائنات کے عجائبات سے بہت لگاؤ تھا، وہ مصر کے مدرسہ دارالعلوم کے استاد تھے، وہ اپنے طلبہ کو قرآن کی بعض آیات کی تفسیر کر کے دیتے، اسی طرح وہ مصحف پر کچھ نہ کچھ لکھا کرتے تھے پھر وہ اپنی تالیف تفسیر ’’الجواہر فی تفسیر القرآن‘‘ کے نام سے منظر عام پر لائے۔ اس تفسیر میں انہوں نے کائنات کے علوم اور مخلوق کے عجائب بیان کرنے پر بھرپور توجہ دی ہے۔ اپنی تفسیر میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم کی سات سو پچاس آیات سائنس کے متعلقہ ہیں ۔ وہ مسلمانوں کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ قرآن کی ان آیات پر بھی غوروفکر کریں جو کائنات کے علم کی طرف ان کی رہنمائی کرتی اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں بلکہ وہ دورِ حاضر میں ان آیات کو دوسری آیات سے افضل حتی کہ فرائض دینیہ سے بھی افضل سمجھتے ہیں ۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں: ’’کاش پتا چل جائے کہ ہم سائنسی علوم سے متعلقہ آیات میں اس طرح توجہ کیوں نہیں دیتے، جس طرح ہمارے بڑوں نے میراث کی آیات میں محنت کی؟ لیکن میں کہتا ہوں کہ الحمد للہ آپ اس تفسیر میں سائنسی علوم کا خلاصہ پڑھیں گے اور یہ علوم