کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 484
خاص دو علوم: علمِ بیان اور علمِ معانی میں مہارتِ نامہ حاصل نہ ہو۔ اور ان دونوں علوم کے حصول کے لیے عمر لگانا پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی براہین کے لطائف کو پہنچاننے کے لیے ان دونوں علوم کے مقامات اور گوشوں کو تلاش کرنے کی ہمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم معجزہ کی وضاحت کرنے کی شدید خواہش ہو، نیز اس نے باقی علوم بھی سیکھ رکھے ہوں اور تحقیق وحفظ کا شوق بھی رکھتا ہو۔ مطالعہ میں گہرائی اور وسعت رکھتا ہو، اپنی یادداشت کو بار بار دہراتا ہو اور ایسے علماء کے پاس آنا جانا ہو، لوگ جسے علم اور اعراب کا شہسوار کہتے ہوں اور حاملینِ کتاب کا سرخیل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ نرم طبیعت، برداشت کا مادہ رکھنے والا، مستقل مزاج اور اپنے آپ کو اچھائی میں ڈھالنے کی ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ابنِ خلدون ایسی تفاسیر کا تذکرہ کرتے ہیں جو لغت، اعراب اور بلاغت کے مصادر سمجھی جاتی ہیں وہ لکھتے ہیں :
ان فنون پر مشتمل تفاسیر میں سب سے اچھی تفسیر زمخشری کی الکشاف ہے، جس کا تعلق عراق کے اہلِ خوارزم سے تھا لیکن اس کا مؤلف اعتزال کا عقیدہ رکھنے والا تھا۔ چناں چہ وہ اپنے باطل مذہب کے لیے بے کار دلائل ذکر کرتا ہے اور بلاغت کے ذریعہ قرآنی آیات پر اعتزال کو داخل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سنت کے محققین اس سے انحراف کرتے اور عوام کو ان کی سازشوں سے ڈراتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اقرار کرتے ہیں کہ لغت وبلاغت میں اس کتاب کو رسوخ حاصل ہے۔ ہاں اگر اس کتاب کا قاری اہلِ سنت کے مذہب سے واقف اور اپنے مذہب کا دفاع کرنا جانتا ہو تو وہ ان کے دھوکے سے لازمی طور پر بچ سکتا ہے، لہٰذا لغت میں اس کے عجیب وغریب فنون کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
عصرِ حاضر میں ایک عراقی کی تالیف ہمارے پاس پہنچی ہے جس کا نام شرف الدین طیبی تھا اور عراق کے عجمی لوگوں اہل توریز سے اس کا تعلق تھا۔ اس کتاب میں اس نے زمخشری کی کتاب کی شرح اور اس کے الفاظ کی چھان بین کی ہے اور اس کے اعتزالی مذہب کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے واضح کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ قرآنی آیات کی بلاغت معتزلہ نہیں بلکہ اہلِ سنت کے نظریات کے مطابق ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں بہت اچھا کام کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ