کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 483
کتاب کی بجائے نحو کی کتاب لگتی ہے۔ ابوحیان اپنی تفسیر میں زمخشری اور ابنِ عطیہ کی تفسیر کو بہت نقل کرتے ہیں خصوصاً نحو اور اعراب کی وجوہات کے مسائل میں ، پھر ان کا تعاقب کرتے ہوئے رد بھی کرتے ہیں اور بسااوقات تو زمخشری پر بہت بری طرح حملہ کرتے ہیں لیکن زمخشری کی بلاغتِ قرآن میں مہارتِ فائقہ اور قوتِ بیان کا بھی اعتراف کرتے ہیں ۔ ابوحیان زمخشری کے اعتزالی خیالات کو پسند نہیں کرتے اس لیے ان پر تنقید کرتے ہوئے بہت ہی استہزائیہ انداز میں ان کا رد کرتے ہیں ۔ وہ اکثر معقولات میں اپنے استاد جمال الدین ابوعبداللہ محمد بن سلیمان المقدسی المعروف بابن النقیب کی کتاب ’’التحریر والتحبیر لاقوال ائمۃ التفسیر‘‘ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کتاب کے بارے ابوحیان کہتے ہیں کہ علم تفسیر میں لکھی جانے والی یہ سب سے بڑی کتاب ہے جس میں سو کے قریب اجزاء ہیں۔ ۳۔ الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التاویل للزمخشری: زمخشری نحو، لغت، ادب اور تفسیر میں ایک مایہ ناز عالم تھے، اور علماءِ لغت ان کی آراء کو باریک بینی اور گہرائی کی وجہ سے بطور استشہاد بیان کرتے ہیں ۔ عقیدہ کے لحاظ سے زمخشری کا تعلق معتزلہ سے تھا، ان کا مذہب حنفی تھا۔ انہوں نے اپنے عقیدے اور مذہب کی تائید کے لیے ’’الکشاف‘‘ تالیف کی۔ زمخشری کی تفسیر میں ان کے اعتزالی نظریات، ان کی ذہانت، سیاست اور مہارت کی واضح علامت ہیں ۔ چناں چہ وہ معتزلہ کی حمایت اور اپنے مخالفین کی تردید کے لیے آیت کے معنی کو متضمن بعید اشارے استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری طرف وہ لغوی لحاظ سے قرآن کے جمال سے پردہ اٹھانے کے لیے اپنی بلاغت کا جادو جگاتے ہیں کیوں کہ انہیں بلاغت، بیان، ادب اور نحووصرف کے علوم میں خوب مہارت حاصل تھی، اس لحاظ سے وہ لغت کا ایک بیش بہا مرجع تھے۔ وہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے حقائق میں غوطہ زنی کرنے والا اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے قرآن کے ساتھ