کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 482
بہت بڑی تفسیر ہے جس کا نام ’’مفاتیح الغیب‘‘ ہے۔
یہ تفسیر آٹھ بڑی جلدوں میں ہے، بہت سارے اقوال سے پتا چلتا ہے کہ فخر الدین رازی اسے مکمل نہ کر پائے تھے۔ انہوں نے کہاں تک تفسیر لکھی؟ بعد میں اسے کس نے مکمل کیا؟ اس بارے مختلف آراء ملتی ہیں ۔ اس بارے محمد ذہبی لکھتے ہیں : میں اس اضطرارات کو ختم کرنے کی کوشش میں کہتا ہوں کہ فخر الدین رازی نے سورۃ الانبیاء تک تفسیر لکھی، ان کے بعد شہاب الدین الخوبی آئے انہوں نے اس تفسیر کو مکمل کرنے کے لیے کام شروع کیا لیکن وہ بھی اس کی تکمیل نہ کر سکے، ان کے بعد نجم الدین قمولی آئے اور انہوں نے بقیہ تفسیر کو مکمل کیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خوبی نے اس تفسیر کو انتہا تک پہنچایا ہو اور قمولی نے خوبی کے تکملہ کے علاوہ اور تکلمہ لکھ دیا۔ کشف الظنون کے مصنف کی عبارت سے یہی لگتا ہے۔ (التفسیر والمفسرون: ۲۹۳/۲)
فخر الدین رازی نے قرآن کی آیات اور سورتوں کے درمیان مناسبت ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ وہ ریاضی، طبیعات، فلسفہ اور مباحثِ الہٰیات کو فلاسفہ کے عقلی استدلالات کی طرز پر بیان کرتے ہیں ۔ نیز فقہا کے مذاہب اور ان بڑی بڑی باتوں کو بھی ذکر کرتے ہیں جن کی علمِ تفسیر میں ضرورت نہیں ہوتی۔
ان کی کتاب علم الکلام اور کائنات کے طبیعاتی علوم میں ایک انسائیکلوپیڈیا ہے، یہی وجہ ہے یہ تفسیر، قرآن کی تفسیر ہونے کے لحاظ سے اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔
۲۔ ابوحیان کی تفسیر ’’البحر المحیط‘‘:
ابوحیان اندلسی غرناطی کو لغت میں مہارتِ تامہ حاصل تھی، اسی طرح ان کے پاس تفسیر، حدیث، راویوں کے حالات، ان کے طبقات کی معرفت، بالخصوص مغرب میں پائے جانے والے علماء کے بارے بہت وسیع علم تھا۔ ان کی بہت سی تالیفات ہیں جن میں سب سے اہم ’’البحر المحیط‘‘ ہے۔
یہ تفسیر آٹھ بڑی جلدوں پر مشتمل ہے اور بہت مقبول اشاعت ہے۔ ابوحیان نے اپنی تفسیر میں اعراب کی وجوہات اور نحوی مسائل ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہاں تک کہ نحویوں کا اختلاف بھی بیان کرتے ہیں ۔ نیز منافشہ ومجادلہ بھی کرتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ کتاب تفسیر کی