کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 480
سلف سے منقول کلام اسی طرح بیان کر دیتے تو اسی کی خوبصورتی میں نکھار آجاتا۔ ابنِ عطیہ محمد بن جریر طبری کی تفسیر سے بہت زیادہ نقل کرتے ہیں جو کہ ایک عظیم قدورمنزلت والی تفسیر ہے۔ پھر وہ ابنِ جریر کی سلف سے منقولات کو چھوڑ دیتے ہیں اور کسی بھی حال میں اسے ذکر نہیں کرتے بلکہ وہ اقوال ذکر کرتے ہیں جو ان کے مطابق محققین کے اقوال ہوتے ہیں ۔ اور محققین سے مراد اہلِ کلام کی وہ جماعت ہوتی ہے جن کے اصول معتزلہ کے اصولوں کے مطابق ہیں اگرچہ وہ خود معتزلہ کی نسبت سنت کے زیادہ قریب تھے۔ (مقدمہ ابن تیمیہ فی اصول التفسیر، ص ۲۳) ۴۔ امام ابنِ کثیر کی ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘: عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمرو بن کثیر بہت بڑے امام اور حافظ تھے۔ انہوں نے ابنِ تیمیہ سے علم حاصل کیا اور بہت سی آراء میں انہی کے پیروکار ہیں ۔ علماء نے حدیث، تفسیر اور تاریخ میں ان کی وسعتِ علمی کی گواہی دی ہے۔ تاریخ میں ان کی کتاب ’’البدایۃ والنھایۃ‘‘ تاریخ اسلامی کا اصل مرجع ہے۔ جب کہ تفسیر میں ان کی کتاب ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ تفسیر بالماثور میں بہت مشہور کتاب ہے، اور تفسیر ابنِ جریر کے بعد اسی کا درجہ آتا ہے۔ امام ابنِ کثیر کلام الٰہی کی تفسیر، احادیث اور صحابہ کی طرف منسوب اقوال سے کرتے ہیں اور ضرورت کے مطابق جرح وتعدیل اور بعض اقوال کی بعض پر ترجیح کو بھی بیان کرتے ہیں ۔ نیز بعض روایات کی صحت وضعف کو بھی بیان کرتے ہیں ۔ امام ابنِ کثیر کو یہ امیتاز حاصل ہے کہ وہ کئی جگہوں پر تفسیر بالماثور میں مروی منکر اسرائیلیات پر بھی متنبہ کرتے ہیں ، اسی طرح فقہی احکام میں علماء کے اقوال اور کبھی کبھی ان کے مذاہب کے اختلاف ودلائل کو بھی بیان کرتے ہیں : تفسیر ابنِ کثیر امام بغوی کی ’’معالم التنزیل‘‘ کے ساتھ طبع ہوئی نیز مستقل طور پر اکیلی بھی چار بڑی جلدوں میں طبع ہوئی۔ اسی طرح الشیخ احمد شاکر نے بھی اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے اس کی اسانید کو حذف کر کے اسے شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ تفسیر بالرائے میں تالیف کی جانے والی مشہور کتب: ۱۔ تفسیر عبدالرحمان بن کیسان الاصم